اگر ہم داعش کو ایک وحشی اور دہشت گرد تحریک کے طور پر تسلیم کریں، اور مان لیں کہ اس نے بین الاقوامی، علاقائی اور اندرونی سطح پر، خاص طور پر ایشیائی ممالک میں اپنا بُرا اثر چھوڑا ہے، تو پھر ہمیں فطری طور پر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ گذشتہ چند دہائیوں میں کوئی اور گروہ یا تحریک ایسی نہیں رہی جس نے داعش کے برابر دہشت گرد حملے کیے ہوں یا اس قدر وحشت پھیلائی ہو۔
داعش جس مخصوص نظریے کے ساتھ میدان میں اُتری، ابتدا ہی سے یہ بات واضح تھی کہ یہ تحریک مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان تفرقہ ڈالنے پر تُلی ہوئی ہے، اور اس سازش کو ہوا دے رہی ہے کہ کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن اسلامی ممالک کو تباہ و برباد کیا جا سکتا ہے۔
داعشی تحریک، اگرچہ بظاہر اسلامی شعائر کا سہارا لے رہی تھی، جو درحقیقت انہی شعائر کو مٹانے اور بدنام کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی۔ ان تمام ممالک میں، جہاں مسلمان مجاہدین اور فکری و انقلابی تحریکیں ایک کامیاب منزل کی طرف گامزن تھیں، اور جہاں برسوں کی محنت اپنے ثمرات دینے کے قریب تھی، وہاں داعش کے نمودار ہونے سے تمام وہ مقدس پروگرام، مقاصد اور منصوبے جو عرصہ دراز سے ترتیب دیے جا چکے تھے، سب خاک میں مل گئے، اور کامیابی کے دہانے پر پہنچی ہوئی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو گئیں۔
بہت سے مجاہدین، جو مختلف ممالک میں نہایت منظم اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے اہداف پر کام کر رہے تھے، اور جن کی جدوجہد مثبت نتائج کے قریب پہنچ چکی تھی، داعش جیسے مکروہ نظریے کے ابھرنے اور اس وحشی گروہ کے اقتدار میں آنے کے بعد، ان کی تمام مقدس امیدیں اور آرزوئیں خاک میں مل گئیں اور مکمل طور پر ختم ہو گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ داعش جیسا گروہ ایک منظم انارکی پھیلانے اور اس دنیا کو غیر مستحکم کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا، جو سکون اور ترقی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کے ذہن میں جو دہشت و وحشت پر مبنی منصوبے تھے اور جو وہ عملی جامہ پہنا رہا تھا، ان کے ذریعے اس نے پورے خطے اور دنیا کو کثیر الجہتی عدم استحکام سے دوچار کر دیا۔
ان چھوٹے ممالک یا سیاسی اصطلاح میں ’’تیسری دنیا‘‘ کے ممالک میں، جہاں ایک نیا نظام ابھر رہا تھا، اور کہیں کہیں تعمیرِ نو اور جدیدیت کا عمل شروع ہو چکا تھا، داعش کے وجود نے عالمی طاقتوں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی، اور ان قوتوں نے ان ممالک میں ایسے اقدامات کیے، جو انہیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق تبدیلی کے نام پر اختیار حاصل تھے۔
وہ بڑی طاقتیں یا مرکزی قوتیں، جو خود کو برتر اور عالمی نظام کی قیادت کا حقدار سمجھتی ہیں، حقیقت میں کبھی بھی دوسرے ممالک کی ترقی اور خوشحالی کو دل سے قبول نہیں کرتیں۔ ان کے نزدیک یہ ممالک دودھ دینے والی گائیں ہیں جنہیں صرف دوہا جا سکتا ہے، ترقی یافتہ نہیں بنایا جا سکتا۔
اسی وجہ سے وہ داعش جیسی تحریکوں کو پروان چڑھاتے اور مضبوط کرتے ہیں، تاکہ ترقی کی راہ پر گامزن ممالک کی پیش رفت کو سست یا مکمل طور پر ختم کر سکیں، اور اپنے مفادات کو طاقتور قیادت کے عنوان سے آگے بڑھا سکیں۔
یہ بڑی طاقتیں، جو اصل میں علاقائی و عالمی استعماری اور استحصالی قوتیں ہیں، اکثر اوقات اپنے بنائے ہوئے قوانین کے تحت براہِ راست اور بلا جواز کسی ترقی پذیر اور وسائل سے مالامال ملک پر کارروائی نہیں کر سکتیں۔
اسی لیے وہ ایسے علاقوں میں دہشت اور بدامنی پیدا کرتے ہیں، اور میڈیا پر کنٹرول کے ذریعے وہاں کے عوام کو یہ باور کرواتے ہیں کہ عالمی اور علاقائی طاقتوں کی موجودگی ان کے مفاد میں ہے، اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان کا وہاں ہونا ضروری ہے۔ یہی بات ظاہر کرتی ہے کہ داعش جیسی تنظیمیں بنیادی طور پر تباہی اور وحشت پھیلانے کے لیے بنائی گئی ہیں۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں کہ داعش نے علاقائی اور عالمی استحکام کو تباہ کرنے میں ان بڑی قوتوں کے تیار کردہ منصوبوں کے مطابق ایک مؤثر آلہ کار کا کردار ادا کیا ہے، تاکہ وہ ان خطوں میں اپنے قدم جما سکیں۔
دنیا کے کئی علاقوں اور ممالک میں ان عالمی طاقتوں کی موجودگی کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز موجود نہیں تھا، لیکن داعش کے پھیلائے گئے خوف و دہشت کی وجہ سے، ان قوتوں نے ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کے نام پر وہاں موجودگی کا اجازت نامہ حاصل کیا، اور اپنے مفادات کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ داعش ایک تیار شدہ منصوبہ ہے، جسے علاقائی طاقتوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے وجود بخشا۔ لیکن ضروری ہے کہ یہ حقیقت عینی دلائل کے ساتھ دنیا اور بالخصوص امتِ مسلمہ کے عوام پر واضح کی جائے کہ یہ نظریہ اور گروہ نہ تو امن کا پیغام لایا ہے اور نہ کبھی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد خطے اور دنیا کو انارکی اور انتشار کی طرف لے جانا ہے۔
داعش کی طرف سے کیے گئے دہشت گرد حملے، چاہے وہ اندرونی ہوں، علاقائی ہوں یا عالمی سطح پر جیسے:
شام، عراق، برسلز، افغانستان، پاکستان، تاجکستان، ایران، لندن اور دیگر مقامات؛ یہ سب اسی سازش اور منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔