غزوہ بدر سے حاصل ہونے والے اسباق:
غزوہ بدر اسلامی تاریخ کے عظیم غزوات کے باب میں ایک روشن اور زریں فصل ہے۔ یہ غزوہ مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور سماجی ترقی کا ایک نقطہ آغاز تھا، جس نے نہ صرف علاقے میں ان کا وقار بلند کیا بلکہ ان کے دشمن (قریش) کو اپنے دلائل اور موقف کے اعتبار سے شدید کمزوری اور تنہائی کا شکار بھی کر دیا۔
یہ غزوہ متعدد نصائح اور عبرتوں سے بھرپور ہے، جن کو سمجھنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قتال کے باب میں یہ ایک اہم منبع و مصدر ہے، جس سے ہر مسلمان کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ان اسباق کو بہتر ترتیب اور تنظیم کے لیے دو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا باب: غزوہ کے آغاز سے لڑائی تک
اس باب میں اسلامی لشکر کے خروج سے لڑائی تک کے واقعات کو مختصراً بیان کیا جائے گا، جن میں امت کے لیے مفید اسباق موجود ہیں۔
دوسرا باب: لڑائی سے اختتام تک
اس باب میں لڑائی کے بعد سے اختتام تک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس منہج اور حکمت عملی سے حاصل ہونے والے اسباق کا تجزیہ کیا جائے گا۔
پہلا باب: آغاز سے لڑائی تک
۱۔ مسلمانوں کا ہدف قریش کا تجارتی قافلہ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق قافلہ بچ گیا، اور مومنین کو لشکر کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں انہوں نے فتح اور غنیمت دونوں حاصل کیں۔ اس سے دو نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں:
الف: محاربین کفار کے اموال حرام نہیں ہیں، یعنی مسلمان ان کو حاصل کر سکتے ہیں، اور اس طرح وہ مسلمانوں کی ملکیت بن جاتے ہیں۔ غزوہ بدر کا سبب قریش کا وہ قافلہ تھا جو مکہ کی طرف جا رہا تھا۔ اس وقت مکہ کے قریش محاربین تھے، اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے مہاجرین کے اموال اور باغات پر قبضہ کر لیا تھا۔ لہٰذا مہاجرین کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے اموال کے بدلے قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹ لیں۔
اس سے مندرجہ ذیل آیات پر عمل ہوتا ہے:
وجزاء سیئة سیئة مثلها
"اور برائی کا بدلہ اسی طرح کی برائی ہے” (سورۃ الشوریٰ: 40)
فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیه بمثل ما اعتدی علیکم
"جو تم پر زیادتی کرے، تم بھی اس کے ساتھ اسی طرح زیادتی کرو جیسے اس نے تم پر کی” (سورۃ البقرہ: 194)
لہٰذا، اگر کوئی جہالت یا تعصب کی وجہ سے مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرائے، وہ حقیقت سے دور ہوگا۔
ب: لشکر کی فتح میں تعداد کے نسبت معیار زیادہ اہم ہوتا ہے۔ مکہ کے لشکر کے پاس فوجی طاقت، گھوڑے، زرہیں، افرادی قوت تھی، اور وہ ہر روز اونٹ ذبح کرتے تھے۔ اس کے برعکس مدینہ کا لشکر نہ صرف افرادی قوت میں کم تھا بلکہ پیٹ بھر کر کھانا بھی ان کے نصیب میں نہ تھا۔ لیکن چونکہ وہ اسلام کی سربلندی اور مقدس شہادت کے لیے لڑ رہے تھے، اس لیے ان کے دل میں ایک قسم کا اطمینان تھا۔ اس لیے ان کے لیے فتح بھی کامیابی تھی اور شہادت بھی کامیابی۔
۲۔ یہ غزوہ امت کو یہ سبق دیتا ہے کہ اگر کوئی سپہ سالار کفر کے مقابلے میں جنگ کا ارادہ رکھتا ہے، تو اسے انٹیلی جنس ذرائع کو وسیع، مضبوط اور فعال رکھنا چاہیے تاکہ دشمن کی حرکات و سکنات اور منصوبوں پر نظر رکھی جا سکے، اور ان کی طاقت کے بارے میں مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے تاکہ مناسب تیاری ہو سکے۔
۳۔ اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی مشورے کی اہمیت کی طرف خصوصی اشارہ کرتی ہے۔ وہ نہ صرف نبی تھے بلکہ ان کا اجتہاد غلطی سے محفوظ تھا، اور اگر غلطی ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے درست کر دیتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا اور ان کے آراء لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک عمل صرف اس غزوہ تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ ہمیشہ اپنے صحابہ سے مشورہ کرتے تھے۔
لہٰذا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن معاملات میں نص (قرآن و سنت) موجود نہ ہو، اور وہ تدبیر، منصوبہ بندی یا شرعی سیاست سے متعلق ہوں، تو اپنے ساتھیوں اور ہم خیال لوگوں کی آراء سننی چاہئیں۔ البتہ اگر کسی معاملے میں نص موجود ہو، تو وہاں مشورے کی گنجائش نہیں، بلکہ نص کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
۴۔ دشمن کو ہر میدان میں شکست دینی چاہیے، خواہ وہ معاشی، سیاسی، پروپیگنڈہ یا فوجی میدان ہو، تاکہ وہ اپنی باطل راہ سے ہٹ جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی قافلے کو نشانہ بنایا، جو ایک طرف تو قریش کے کرتوتوں کا ردّعمل تھا جو وہ اسلام کے خلاف وقتاً فوقتاً کرتے تھے، اور دوسری طرف یہ ان کے خلاف معاشی جنگ بھی تھی۔ کیونکہ اس قافلے میں تمام مشرکین کے بہت زیادہ اموال منتقل ہو رہے تھے، اور اس کے نتیجے میں وہ ایک شدید معاشی دھچکے سے دوچار ہوتے، جو کہ کفار کے ساتھ جنگ اور جہاد کا مقصد بھی ہے۔
لہٰذا، کفار کے اسلام سے انکار کے بعد ہر میدان میں جنگ اور اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ جنگ کو کامیابی سے منظم کیا جا سکے اور دشمن کو ہر طرف سے شکست دی جا سکے۔