جنگِ بدر سے حاصل ہونے والے اسباق کے تسلسل میں آج ہم چند مزید اسباق اور عِبر آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
۱۰۔ اگر ہم جنگِ بدر میں مسلمانوں اور کفار کے لشکروں کو تعداد اور اسلحے کے لحاظ سے تقابلی انداز میں دیکھیں، تو بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی کیسے ممکن ہوئی؟ اور وہ کون سے اسباب تھے جن کی بنا پر یہ عظیم کامیابی حاصل ہوئی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ معرکہ ایمان اور مادیت کے درمیان تھا۔ ایک طرف دنیاوی طاقت، غرور اور تکبر تھا، اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ، اس کا رسول ﷺ، اور ان پر ایمان لانے والے صحابۂ کرامؓ تھے، جو ایمان کے جوہر سے لبریز تھے۔ ان کے پاس ہتھیار تو نہیں تھے، لیکن ان کے پاس وہ چیز تھی جس سے دشمنوں کو ہتھیاروں سے بڑھ کر ڈر تھا، اور وہ ایمان، عقیدہ اور آسمان سے نازل ہونے والی نصرتِ الٰہی تھی۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَی‘‘(الانفال: ۱۷)
ترجمہ: پس (اے مسلمانو!) تم نے اُن کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اُنہیں قتل کیا، اور (اے نبی!) جب تم نے کنکر پھینکے، تو وہ تم نے نہیں پھینکے بلکہ اللہ نے پھینکے۔
جس طرح دشمن عالمِ اسلام کے ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور عالمی طاقت سے خائف ہے، اس سے کہیں بڑھ کر وہ مسلمانوں کے غیر متزلزل ایمان سے ڈرتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ امارتِ اسلامی کے قائدین اور دیگر جہادی رہنماؤں پر کس قسم کی پابندیاں لگائی گئیں، اور انہیں ختم کرنے کے لیے پورے دنیائے کفر اور خفیہ اداروں نے کتنی کوششیں کیں۔ کیوں؟
اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ دراصل ایمان اور پختہ عقیدے کے حامل تھے۔ ان سے ایسے طاقتور افراد بن سکتے تھے – اور بنے بھی – جن کا اصل ہتھیار ایمان تھا، اور جو موجودہ ٹیکنالوجی کے گرم بازار کو بالکل سرد کر سکتے تھے۔
۱۱۔ آپس میں رحم دلی و شفقت:
اللہ تعالیٰ پر مضبوط ایمان کے بعد جو چیز کسی لشکر کو کامیابی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے، وہ آپس کی رحم دلی، شفقت اور باہمی عزت و احترام ہوتا ہے۔ جنگِ بدر میں نصرتِ الٰہی کے بڑے اسباب میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اہلِ ایمان ان اوصاف کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآنِ کریم میں یوں بیان فرمایا: ’’هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ۔ (الانفال: ۶۳)
ترجمہ: وہی (اللہ) ہے جس نے آپ کو اپنی مدد اور مؤمنوں کے ذریعے مضبوط کیا، اور ان کے دلوں میں آپس میں محبت ڈال دی، اگر آپ زمین کی تمام دولت بھی خرچ کر دیتے، تو بھی آپ ان کے دلوں میں محبت پیدا نہ کر سکتے، لیکن اللہ نے ان کے دلوں میں محبت ڈال دی۔
اسلام کے وہ پیروکار اس لیے بھی کامیاب ہوئے، کیونکہ وہ سب ایک کلمے لا إله إلا الله محمد رسول الله پر متحد تھے۔ ان سب کی ایک ہی غرض و غایت تھی کہ اسلام کا مکمل نفاذ اور اس کا پھیلاؤ۔ یہی وہ بنیاد تھی جس کی بنا پر ہر صحابی نے، اگر ضرورت پڑی، تو اپنے بھائی، باپ یا قریبی رشتہ دار کو بھی قتل کیا، کیونکہ ان کا معیار اسلام تھا۔ اگر کوئی اسلام قبول کرتا، چاہے وہ ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہوتا، تو وہ ان کے نزدیک باپ اور بھائی سے بھی زیادہ عزیز ہوتا۔
یہ صف اختلاف کو قبول کرنے والی نہیں تھی، وہ کفر کے مقابلے میں ایک مضبوط چٹان کی مانند متحد تھے۔ اس کے برخلاف، مشرکین کی صف محض قبائلی عصبیتوں پر مبنی تھی، جس میں ہر قبیلہ صرف اپنے مفاد کو اہمیت دیتا تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمان متحد ہوئے، دنیا کی کوئی طاقت ان کی فتوحات کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ انہوں نے ہمیشہ بڑی بڑی سلطنتوں پر لرزہ طاری کیا۔ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اس بارے میں یوں نصیحت فرماتے ہیں:’’وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ‘‘۔(الانفال: ۴۳)
ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی۔
۱۲۔ یوم الفرقان:
بدر کا معرکہ حق اور باطل کے درمیان فرق و امتیاز کا دن تھا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ’’یوم الفرقان‘‘ یعنی فرق کرنے والا دن کہا ہے۔ یہ زمین، آسمان اور ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ زمین پر ہر فیصلہ اور ہر اقدام اللہ کی رضا کے مطابق ہونا چاہیے۔ مگر اُس وقت زمین پر باطل کے جراثیم غالب تھے، حق کی روشنی کو مدھم کر چکے تھے، زمین پر طاغوتی طاقتیں مسلط تھیں، جو اللہ کی مخلوق کے ساتھ کھیل کھیلتی تھیں۔
مگر بدر ان طاغوتی قوتوں کے خاتمے کا آغاز تھا۔ اس نے باطل کے تدریجی زوال کی بنیاد رکھ دی، اور باطل کبھی دوبارہ سر نہ اٹھا سکا، اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ غزوہ بدر ’’یوم الفرقان‘‘ ہے۔
اگر ہم سادہ اور مختصر انداز میں کہیں، تو بدر نے شرک کا بچھا ہوا جال لپیٹ دیا اور اس کی جگہ توحید کی روشنی پھیلا دی یعنی شرک توحید کے مقابلے میں شکست فاش سے دوچار ہوا۔
۱۳:- اسلام صرف نعرے کا دین نہیں:
غزوہ بدر نے یہ ثابت کر دیا کہ حق، انسانی معاشرے میں صرف زبانی نعروں یا صرف نظریاتی نفرت سے نافذ نہیں ہوتا، اور نہ ہی باطل صرف ان دو باتوں سے ختم ہو جاتا ہے۔ بلکہ حق کے قیام اور باطل کے خاتمے کے لیے عملی قدم، جدوجہد اور قربانی ضروری ہوتی ہے۔
باطل کے معبودوں کو توڑا جائے، اور حق کے معبود کو غالب کیا جائے – یہی کارنامہ بدر کے غازیوں نے انجام دیا، اسی لیے اس دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ کہا گیا۔