غزہ، جس کا نام سنتے ہی انسان کے ذہن میں قربانی، شجاعت، صبر اور استقامت کی دل آویز داستانیں مجسم ہو جاتی ہیں۔ غزہ اسلام کا وہ ناقابلِ تسخیر مورچہ ہے جو صہیونی اسرائیل کے لیے جہنم بن چکا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں کے مجاہدین نے اپنی معجزانہ کارکردگیوں سے تاریخ کا ایک ایسا باب رقم کیا ہے جس کی نظیر جدید تاریخ میں نہیں ملتی۔
ہمارا وہی غزہ، جہاں کی ماؤں نے صبر و استقلال کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں، جو انسانی عقل کی سمجھ سے ماورا ہیں۔ غزہ اسلامی جغرافیہ کا وہ حصہ ہے جس نے سب سے زیادہ جنگیں، بمباری اور محاصرہ برداشت کیا ہے۔ یہ حماس کے جانباز مجاہدین کا مرکز ہے، وہی مقام جہاں سے غاصب صہیونی ریاست کے مفادات کو للکارا جاتا ہے، وہی جگہ جہاں سے استشہادی اور گوریلا کارروائیوں کی منصوبہ بندیاں کی جاتی ہیں، جنہوں نے مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کا سکون غارت کر دیا ہے۔
سن۲۰۰۶ء میں صہیونی ریاست نے غزہ کو چاروں طرف سے محاصرے میں لے لیا۔ خشکی کی جانب اس نے غزہ اور باقی ماندہ مقبوضہ فلسطین کے درمیان ایک عظیم الشان کنکریٹ کی دیوار کھڑی کی، جس پر ہر چند سو میٹر کے فاصلے پر نگرانی کے لیے چوکی بنائی گئی، جو جدید کیمروں اور تربیت یافتہ فوجیوں سے لیس ہے۔ سمندر کی طرف سے بھی غزہ کے باشندوں کی آمد و رفت کے تمام راستے بند کر دیے گئے، اور کوئی بھی کشتی اسرائیلی اجازت کے بغیر غزہ کے ساحل کے قریب نہیں آ سکتی۔ مصر پر بھی صہیونی دباؤ ڈالا گیا، اور نتیجتاً رفح بارڈر کو مظلوم فلسطینیوں کے لیے بند کر دیا گیا۔
غزہ کو محاصرے میں لیے ۱۸ سال گزر چکے ہیں۔ پانی، بجلی، انٹرنیٹ اور تمام بنیادی ضروریات اسرائیل کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ اس محاصرے نے غزہ کے ۸۰ فیصد نوجوانوں کو بے روزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا۔ دو ملین کی آبادی میں سے پندرہ لاکھ افراد غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ غزہ ایک ایسے جغرافیائی قیدخانے میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں لاکھوں لوگ قید ہیں اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم کر دیے گئے ہیں۔
تاہم، محاصرے کے دوران غزہ کے غیور عوام ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے۔ انہوں نے اپنی آزادی، اپنی سرزمین اور اپنے مقدسات کی بازیابی کے لیے ایسے سرنگیں کھودیں کہ آج ساری دنیا انگشت بدنداں ہے۔ انہی سرنگوں میں انہوں نے جدید عسکری صنعت کی بنیاد رکھی؛ ایسی عسکری قوت جو آج خود یہودی دشمن کے لیے بھی ناقابلِ مقابلہ بن چکی ہے۔
عسکری تعلیم وتربیت کے باب میں انہوں نے کتائب القسام اور سرایا القدس جیسی جماعتوں پر مشتمل ایسے جان نثار مجاہدین تیار کیے جن کے سامنے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے تربیت یافتہ افواج اور جدید اسلحہ سے لیس لشکر بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ اتنی اعلیٰ سطح کی سرنگوں کا جال بچھانا، جن میں سے ہر ایک سرنگ درجنوں کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے، اور ساتھ ساتھ اتنی بڑی جنگی صنعت کو اسرائیلی خفیہ ادارے موساد جیسے دنیا کے ترقی یافتہ انٹیلیجنس نیٹ ورک سے پوشیدہ رکھنا؛ یہ ربِ رحمن کی نصرت اور معاصر جہاد کا ایک عظیم معجزہ ہے۔
غزہ امتِ مسلمہ کا ایک مضبوط مورچہ ہے؛ وہ مورچہ جو صفِ اول میں امت کی دفاعی دیوار بن کر کھڑا ہے۔ اس چھوٹے سے خطے کے بہادر عوام نے اپنی آزادی اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے لیے ۷ اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے مبارک حملے کا آغاز کیا، جو کئی دہائیوں کی تیاری، منصوبہ بندی اور تربیت کا نتیجہ تھا۔
ان مقدس حملوں نے یہودی غرور کو خاک میں ملا دیا، بین الاقوامی انٹیلیجنس نیٹ ورکس کو بے نقاب کر دیا، اور انسانی حقوق کے نام پر مغرب کا دوغلا چہرہ دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔ اس نے عالمی کفر کے اتحاد اور امتِ مسلمہ کی کمزوری و بزدلی کو واضح کر دیا۔ ان کارروائیوں نے حق و باطل کی صفیں الگ کر دیں، اور اسرائیل کو ایک ایسے گرداب میں دھکیل دیا، جسے وہ گزشتہ ستر سالوں میں کبھی نہ دیکھ پایا تھا۔ یہ مبارک حملہ ان کے زوال کی ابتدا، اور ان کے تابوت پر پہلا کیل ثابت ہوا۔
طوفان الاقصیٰ کے آغاز اور اس کے جواب میں غزہ پر صہیونی جارحیت کے اب تقریباً ۷۵۰ دن مکمل ہونے کو ہیں۔ اس عرصے میں دشمن نے ۱۲،۴۰۰ معصوم خواتین، ۱۸،۰۰۰ بچے، ۱۴۰۰ ڈاکٹر، ۱۳۰۰۰ طلباء اور ۳۵۳۵ بزرگوں کو شہید کر دیا۔
۲۱۸۰ خاندان مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں؛ ان میں ایک بھی فرد زندہ نہ بچا۔ ۵۰۸۰ خاندان ایسے ہیں جن میں صرف ایک فرد باقی بچا ہے۔ ۸۵۲۰ غزہ کے مسلمان بھائی آج بھی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے لاپتہ ہیں۔ اسپتال طبی وسائل سے محروم ہو چکے ہیں، اور لاکھوں مؤمنین زخمی و بے یار و مددگار پڑے ہیں۔
غزہ کے ۹۰ فیصد باشندے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ قریباً دو ملین افراد رفح سرحد کی جانب ہجرت کر چکے ہیں، جہاں وہ خیموں میں دن رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ ۹۲ فیصد سے زائد غزہ مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، ایک ہزار مساجد شہید کر دی گئی ہیں، سینکڑوں اسپتال اور تعلیمی ادارے صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے ہیں، تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہیں۔ صہیونی جارحین نے صرف تباہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ غزہ کے مکینوں کا مال، دولت اور قیمتی سامان بھی لوٹ لیا۔ آج غزہ میں بمباری کے ساتھ بھوک، پیاس، سردی اور گرمی بھی انسانیت کے لیے مہلک خطرہ بن چکے ہیں۔
گزشتہ۸۰ دنوں سے کسی بھی بین الاقوامی فلاحی ادارے کی طرف سے غزہ میں کسی قسم کی امداد نہیں پہنچی۔ غذائی اجناس مکمل ختم ہو چکی ہیں، رفح کی گزرگاہ بند ہے، اور لاکھوں مسلمان، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، گھاس کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ پینے کا پانی ناپید ہے، سردی سے بچاؤ کے کوئی وسائل موجود نہیں، گرمی سے پناہ کا کوئی ٹھکانہ نہیں، بجلی معطل ہے، اور زندگی کی بنیادی ضروریات کا حصول ممکن نہیں رہا۔
لیکن ان تمام تر بدترین حالات کے باوجود، آپ کو غزہ کے کسی بچے کی زبان سے کبھی مایوسی یا بزدلی کا ایک لفظ بھی سننے کو نہیں ملے گا۔ یہ وہ نسل ہے جو ایمان کی روشنی، فولادی حوصلے اور غیر معمولی تربیت کے ساتھ پروان چڑھی ہے، جن کے خمیر میں شجاعت اور فداکاری کی داستانیں بسی ہوئی ہیں۔ ایسی مائیں، جنہوں نے اپنے تمام بچے قربان کر دیے، صبر اور استقامت کی ایسی لازوال مثالیں چھوڑ گئیں کہ قلم بھی ان کے بیان سے عاجز ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’’ہم مٹ جائیں، ہمارے گھر تباہ ہوں، ہمارے بچے شہید ہو جائیں، لیکن فلسطین باقی رہے، اقصیٰ باقی اور آزاد ہو!‘‘
غزہ کے نوجوانوں نے جہاد و مزاحمت کی صفوں میں اپنے خون سے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا؛ ایسا باب جو سراسر شجاعت، قربانی اور استشہاد سے لبریز ہے، ایسا باب جس میں دشمن کی ہلاکت، ظالموں کی نابودی اور باطل کی پسپائی کی صدائیں ہیں، جنہیں بیان کرنا زبان کے بس کی بات نہیں۔ دوسری طرف، دو ارب امتِ مسلمہ کا سمندر، روزانہ ان مظالم، خون کی بہتی نہروں، ماؤں کی سسکیوں، بچوں کی چکنا چور ہڈیوں اور بربادی کے مناظر کو دیکھتا ہے، مگر مجرمانہ خاموشی سے تماشائی بنا بیٹھا ہے۔
عالمِ اسلام کے حکمران، جنہیں اپنی افواج کو مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے روانہ کرنا چاہیے تھا، وہی حکمران غزہ کے تمام راستے بند کر چکے ہیں۔ حتیٰ کہ خوراک اور دوا تک کی رسائی کو روکنے والے یہی طاغوتی نظام ہیں۔ اس دوران، امریکہ، فرانس، اٹلی اور دیگر مغربی ممالک کے ہزاروں فوجی، یہودیوں کے شانہ بشانہ اسلام کے خلاف صف آرا ہیں، اور انہیں بھرپور عسکری و اقتصادی امداد مہیا کر رہے ہیں۔ غزہ آج کی دنیا میں منافقت، ظلم، استعمار اور بے انصافی کی جیتی جاگتی مثال ہے؛ یہ نہ صرف ایک مظلوم اسلامی خطے کی کہانی ہے، بلکہ انسانیت، اخلاقیات اور اقدار کی مکمل تباہی کا واضح ثبوت بھی ہے۔
غزہ پر صہیونی ریاست کے حملے کے بعد، صہیونی جرنیلوں کا گمان تھا کہ وہ صرف ایک ہفتے میں غزہ کی مزاحمتی تحریک کو ختم کر دیں گے، مگر اب ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اب تک قابض دشمن کے تقریباً ۱۵۰۰ ٹینک اور زمینی جنگی ساز و سامان تباہ ہو چکے ہیں۔ ہزاروں صہیونی فوجی مارے گئے ہیں، جب کہ ہزاروں زخمی، نابینا اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں، اور فوج میں شدید کمی کا سامنا ہے۔
طوفان الاقصیٰ کے بابرکت حملے جدید تاریخ کا ایک بے مثال واقعہ ہیں، اس جیسی صورت حال کا سامنا صہیونی ریاست کو اپنے ۷۰ سالہ وجود میں کبھی نہ ہوا۔ الہام ربانی سے تیار کردہ راکٹ، الیاسین-۱۰۵، ڈرون طیارے، مارٹر گولے اور درازنوف جیسے ہتھیار غازیوں کی دفاعی صنعت کا نایاب اور باوقار اثاثہ ہیں۔ یہی اسلحہ طوفان الاقصیٰ کے نمایاں ہتھیار ثابت ہوئے، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نصرت کے سائے تلے غزہ میں قابض دشمن ایک ایسے ناقابلِ تصور مزاحمت سے دوچار ہوا کہ ساری دنیا حیرت میں ڈوب گئی۔
اور آج بھی کتائب القسام او سرایا القدس کی قیادت میں مسلح جہادی کارواں پورے جذبے، جوش، اور ولولے کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
الحمدللہ! ہمیں اللہ جل جلالہ کی نصرت پر کامل ایمان ہے کہ وہ اپنے اس چھوٹے مگر باوفا قافلے کو عظیم الشان کامیابیوں کی بلندیوں تک ضرور پہنچائے گا۔