مختصر انداز میں کہا جائے تو غزہ دکھوں اور تکالیف کی زمین ہے، مگر اسی حال میں مزاحمت اور استقامت کی ایک واضح علامت بھی ہے۔ اس علاقے کے لوگ اپنے دشمنوں کے سامنے، جو انہیں ملیا میٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، فولاد کی طرح کھڑے ہیں۔
غزہ صرف زمین نہیں ہے، بلکہ ایک تصور ہے جو تاریخ اور انسانی ضمیر میں ثبت ہو چکا ہے۔ غزہ کی مزاحمت صرف ہتھیاروں اور جنگ تک محدود نہیں ہے؛ یہ آزادی، انسانی وقار اور اپنا بنیادی دفاع اور جدوجہد ہے۔
اہلِ غزہ سالوں سے سخت اور شدید تکلیف دہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، مگر انہی سخت حالات میں انہوں نے ایک غیر معمولی طاقت دکھائی ہے جس کا دنیا میں کوئی متبادل نہیں۔ اس زمین نے اپنے جگر گوشوں کو کھو دیا ہے، لیکن ان ہی کے خون سے مزاحمت و مقاومت کی بنیادیں عوام کے دلوں میں پیوست ہوچکی ہیں اور جنگ و ظلم کے طوفانوں کے باوجود اب بھی سربلند کھڑے ہیں۔
انہوں نے نہ صرف عسکری حملوں کے خلاف بلکہ پابندیوں، محاصروں اور روز بروز بڑھتے ہوئے دباؤ کے مقابلے میں استقامت دکھائی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، یہ مزاحمت ہر قسم کے ظلم و عدوان کے خلاف مزاحمت ہے، اقتصادی دباؤ، بمباریایوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عالمی خاموشی کے خلاف۔
غزہ کے لوگ اس حال میں جبکہ عالمی برادری صرف تماشا دیکھ رہی ہے، ہر روز ایک دوسرے سے مدد وتعاون میں کھڑے ہیں اور شہداء، ان ماؤں کے دلاسے کا سبب بن رہے ہیں جو اپنے بچوں کو بمباری میں کھو چکی ہیں، اور ان بچوں کے سروں پر دستِ شفقت رکھ رہے ہیں جن کے والدین ان مظالم کا شکار ہوئے ہیں، اس کے باوجود اہلِ غزہ میدان جنگ میں بھی دشمن کو ناکوں چنے چبوارہے ہیں۔
غزہ کی مزاحمت صرف آزادی کے لیے ایک جنگ نہیں بلکہ ایک ایسی جدوجہد ہے جو انسان کی روحانی قوت کو ثابت کرتی ہے۔ غزہ نے دنیا کو یہ دکھایا ہے کہ سب سے سخت حالات میں جب سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے، انسان کی روح نہیں مرتی، اس کی معنوی قوی قائم رہتے ہیں۔ اہلِ غزہ کی روحیں ان تمام دردوں کے باوجود جو انہوں نے برداشت کیے ہیں، ابھی بھی زندہ ہیں اور ظلم و استبداد کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔ یہ مزاحمت نہ صرف جنگوں میں بلکہ غزہ کی ہر گلی اور کوچے میں لوگوں کے دلوں میں جاری ہے۔
غزہ کی مزاحمت نہ صرف قابضین کے مسلسل ظلم و ستم کا جواب ہے بلکہ ایک مشترکہ نغمہ ہے جو ہر بچے اور بزرگ کے دل سے، ہر گلی اور کونے سے بلند ہوتا ہے۔ یہ مزاحمت صرف میدان جنگ تک محدود نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی جدوجہد لوگوں کی زندگی کے ہر پہلو میں جاری ہے۔ جو چیز غزہ کے لوگوں کو دوسرے اقوام سے ممتاز کرتی ہے، وہ ان کی جرات اور قربانی ہے۔ وہ خالی ہاتھوں اور ایمان سے معمور دلوں کے حامل اپنے نظریات سے متعلق مکمل یقین کے ساتھ دشمنوں کے سامنے کھڑے ہیں جو ہر روز نت نئے طریقوں سے حملے کر رہے ہیں۔
غزہ کے لوگوں کے لیے آزادی اور انسانی عظمت صرف وہ نعرے نہیں ہیں جو تاریخی کتابوں میں درج ہیں، بلکہ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو ان کے خون میں دوڑ رہی ہیں۔ انہوں نے ان حقائق کے لیے اپنی زندگی قربان کی ہے اور ابھی تک اپنے وعدوں پر قائم ہیں۔
یہ مزاحمت قابضین کے خلاف نئے اور تازہ صورتوں میں ہر روز ابھررہی ہے، آج غزہ صرف جسمانی جنگ کا میدان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو حق اور انصاف کی ترجمانی کرتی ہے، جب غزہ مزاحمت کرتی ہے تو یہ نہ صرف اپنی سرزمین کو قبضے سے آزاد کرتی ہے بلکہ انسانی اور اخلاقی اقدار کا دفاع بھی کرتی ہے۔ غزہ پوری دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ آزادی، عزت اور انسانی حقوق صرف باتیں نہیں ہیں، بلکہ وہ اصول ہیں جو کسی بھی طاقت کے ذریعے سے انسانوں سے نہیں چھینے جا سکتے۔
غزہ بظاہر ایک تباہ حال اور برباد زمین لگ سکتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ زمین ایک نئی تخلیق و تعمیر کی زمین ہے، ایک ایسی تخلیق جس کا ہر دن لوگوں کے دلوں اور نظر میں احساس پیدا کرتا ہے۔ جب ایک بچہ غزہ میں مسکراہٹ کے ساتھ تباہ شدہ مقامات سے گزرتا ہے، تو یہ مسکراہٹ نہ صرف امید کی علامت ہے بلکہ وہ عزم بھی ظاہر کرتی ہے کہ کوئی بم یا توپخانہ اسے مٹا نہیں سکتا۔
اہلِ غزہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ دنیا نے ان کے گھروں اور عمارتوں کو تباہ کیا ہے، لیکن ان کے حوصلے، ان کے جذبات ان سے چھینے نہیں جا سکتے۔ غزہ کی مزاحمت صرف ایک زمین اور ایک قوم تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالمی درس ہے کہ کوئی بھی ظلم ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتا اور آزادی کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد بے نتیجہ نہیں ہوتی۔
اہلِ غزہ ان تمام دردوں اور تکالیف کے باوجود جو انہوں نے برداشت کی ہیں، ابھی بھی مزاحمت کر رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کی مزاحمت نہ صرف غزہ کے لیے ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے ہے؛ ایک ایسی مزاحمت جو ہر دن ظلم کے خلاف آزادی اور انصاف کی آواز دنیا بھر میں بلند کرتی ہے۔ غزہ آج ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حقیقی مزاحمت صرف ہتھیاروں اور جسمانی جنگوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ لوگوں کے دلوں میں اور اس جذبے میں بھی ظاہر ہوتی ہے جو وہ ہر دن اپنی محنت سے آزادی کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔
غزہ ابھی بھی زندہ ہے، ابھی بھی مزاحمت کر رہی ہے اور ابھی بھی اپنے کاندھوں پر آزادی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ زمین اپنے تمام دردوں اور مشکلات کے باوجود زندہ ہے اور دنیا کو یہ دکھارہی ہے کہ انسان سب سے مشکل حالات میں بھی مزاحمت کر سکتا ہے اور کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ غزہ آج صرف ایک مزاحمتی زمین نہیں ہے بلکہ وہ تمام اقوام کے لیے ایک مثال بن چکی ہے جو آزادی اور انصاف کی تلاش میں ہیں۔
بالآخر غزہ نے ثابت کردیا ہے کہ کوئی بھی اس وقت تک شکست نہیں کھاسکتا، جب تک اس کی روح شکست نہ کھا جائے۔