م عبد البر موحد
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر تمام مسلمانوں کو "النفس” سے تعبیر کیا ہے یعنی ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا جسم ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ولا تلمزوا أنفسکم (اپنی جانوں پر یعنی اپنے مسلمان بھائیوں پر الزام مت لگاؤ)
ولا تقتلوا أنفسکم (اپنی جانوں پر یعنی اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل مت کرو)۔
لولا اذ سمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات بأنفسهم خیرا (جب تہمت سنی تو مسلمان مردوں اور عورتوں نے کیوں نہ اپنی جانوں یعنی ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان نہیں کیا)۔
ولا تخرجون أنفسکم من دیارکم (تم اپنی جانوں کو یعنی مسلمان بھائیوں کو اپنے علاقوں سے مت نکالو)
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان بھائی کے مقابل ہر عمل کو ایسے فرض کیا جیسا اپنے آپ کے ساتھ کرتے ہیں اور اس کا حکم یہ ہے کہ: کما تدین تدان
اگر دور حاضر کے خوارج داعشیوں کی روش اور طریقہ کار پر غور کریں تو وہ اسلام کے اس اصول کے سو فیصد طور پر خلاف چل رہے ہیں۔ کسی مسلمان کو بھائی کے طور پر یا اپنے جیسا نہیں سمجھتے، بلکہ مرتد اور غیروں کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی لیے ان کی جان، مال اور عزت کو مباح گردانتے ہیں۔
ان کا زعمِ باطل یہ ہے کہ صرف ہم ہی مسلمان ہیں اور ہمارا گروہ ہمارا جسم ہے، اور ہم سے ما وراء کوئی مسلمان نہیں تو اسے کیسے اپنا جسم کہہ سکتے ہیں؟
تمام اسلامی سرزمینون کے ۰۱ء۰ فیصد حصے میں اسلام کو مقید کرتے ہیں اور باقی ۹۹ء۹۹ فیصد مسلمانوں کے اسلام کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ انصاف ہے!!
مسلمانان عالم نے کفرِ بواح تو نہیں کیا تو ان کی کیوں تکفیر کرتے ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ گناہِ کبیرہ پر بھی مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور دوسرا اس وجہ سے کہ اپنے آباء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے "اذا کفر الراعي کفرت الرعیة” کے خوارج کے قانون پر چل رہے ہیں یعنی اگر راعی اور حاکم کافر ہو جائے (علی زعمھم) تو رعیت خود بخود کافر ہو جاتی ہے العیاذ باللہ۔ اسی وجہ سے تو ہر مسجد، خانقاہ، بازاروں اور آبادیوں میں دھماکے اور حملے کرتے ہیں اور مسلمانوں کا ناحق خون بہاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے شر سے مسلم امت کو ہمیشہ محفوظ رکھے۔