حکومت کے دائرہ کار سے ہٹ کر یہ ہم سب کا فریضہ ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں، یہ حکم خداوندی تمام لوگوں کو متوجہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو اچھے کاموں کی ترغیب اور برے کاموں سے حتی الوسع روکیں۔
یہی وہ حکم ربانی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ہر قیمت پر اس فریضے کو ادا کریں۔
لہذا لوگوں کو اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیں، نیکی کی طرف ترغیب دیں، برے کاموں سے منع کریں، اسلامی نظام کی قدر واھمیت سے انہیں آگاہ کریں، بڑوں اور چھوٹوں کے حقوق سمجھائیں، انہیں بتائیں کہ مردوں اور عورتوں کے حقوق کیا ہیں، ان کے آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں، اور اسلام میں مرد اور عورت کو کیا مقام حاصل ہے۔
افراط وتفریط، غلو وانتہاء پسندی سے اجتناب کریں، دین وشریعت کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی بجائے اپنے آپ کو کامل طور پر احکامات الٰہی کا مطیع و فرماں بردار بنائیں۔
دین وشریعت کے دفاع میں دشمن کے مقابل سینہ سپر ہوکر مقابلہ کریں، ان کے منصوبوں کو خاک میں ملادیں، ان کی جھوٹے پراپیگنڈوں کا شکار نہ ہوں، بس یہی امر بالمعروف، نھی عن المنکر اور مطلوبِ شریعت واسلام ہے۔
جب سے امیرالمومنین حفظہ اللہ کی طرف سے امر بالمعروف کا قانون منظور ہوا ہے،اس کے بعد سے دیکھنے میں آیا ہے کہ مغرب پرست میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ اس قانون میں عورتوں کے حقوق پامال کیے گیے ہیں، ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ عوام میں ان افواہوں کے ذریعہ حکومت سے بددلی اور منفی افکار پھیلائے جائیں۔
ہم اپنی عوام کو اطمینان دلانا چاہتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی حکومت ہے، یہاں کسی کی مجال نہیں کہ وہ دوسروں کے حقوق غصب کرسکے۔
کسی کی حق تلفی شریعت کی رو سے ظلم وانتہاء پسندی ہے اور کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ دوسروں کے حقوق پر ہاتھ ڈال سکے، لہذا کسی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، موجودہ نظام حکومت میں ہر فرد کے حقوق محفوظ ہیں۔
مغرب کی جعلی خبروں اور افواہوں پر کان نہ دھریں۔