افغانستان جو کئی دہائیوں تک جنگ کا گرم میدان، امریکہ کے نئے ہتھیاروں کی ٹیسٹ سائٹ اور زر خرید جنگجوؤں، پراکسی اور دہشت گرد گروپوں کی افزائش کا مقام رہا، بالآخر تین برس قبل آج ہی کے دن تمام مذکورہ بربریتوں سے نجات پا کر امارت اسلامیہ کے پاکیزہ مجاہدین کا میزبان بن گیا۔
اسی دن امریکہ نے اپنی برسوں سے تیار کردہ سازشوں، منصوبوں، مقاصد اور اپنے تربیت کردہ گروپوں کی ناکامی دیکھ لی،کیے گئے اخراجات نے کوئی فائدہ نہ پہنچایا، طاقتیں اور امیدیں دم توڑ گئیں، حوصلے پست ہو گئے اور ذہنی اذیت میں مبتلا ہو گیا۔
داعش جس کو امریکہ اور اس کے حواری خطے میں ایک بڑا نیٹ ورک تصور کرتے تھے، جو ان کی دانست میں امارت اسلامیہ افغانستان کی افواج کو شکست دینے اور افغانستان کو ایک بار پھر بڑے استعمار کی جانب دکھیلنے کے قابل تھا، خوش قسمتی سے اسی دن امریکہ کے سامنے فرار ہو گیا اور آزمائشیں ختم ہو گئیں۔
دوسری جانب جبہۂ مقاومت کہلانے والا شر و فساد کا گروپ جس نے کابل کے شمال، پنجشیر، سالنگ اور آدھے شمال پر حکومت کی، جس نے جمہوریہ کے کسی رہنما کو قبول نہیں کیا صرف احمد شاہ مسعود کے ہاتھ پر بیعت کی، اور اس کے مارے جانے کے بعد اس کے بیٹے احمد مسعود کا ساتھ دیا، اس کے ارکان بھی پنجشیر کے دروں میں ہلاک یا یورپی ممالک فرار ہو گئے۔
حزب التحریر جو نواجوانوں کے ذہنوں میں ایک نئی اسلامی خلافت و حکومت کے اہداف انڈیلتی ہے، امارت اسلامیہ کے آنے سے اس کا پراپیگنڈہ اور تحریفات تھم گئیں۔ اگرچہ وہ اب بھی خفیہ طور پر اپنے مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہے، لیکن اب نوجوان سمجھ چکے ہیں کہ کوئی خلافت ملافت نہیں، بلکہ وہ اسلامی اقدار اور ایک پاکیزہ اسلامی نظام کے خلاف جنگ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
یہ وہ بڑے گروہ ہیں جو، اندرونِ ملک، خطے میں اور پوری دنیا میں بڑے دہشت گردانہ حملوں، جرائم، قتل عام یا پھر فکری استعمار، نوجوانوں کو دھوکہ دینے اور جنگ پر اکسانے کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن الحمد للہ! ۲۴ اسد کو ان کی بساط ان کے آقاؤں کے سامنے لپیٹ دی گئی۔