جمعرات کو شمسی ہجری کیلنڈر کے ماہِ جدی کی ۶ تاریخ تھی۔ افغانستان کی تاریخ کا یہ بھیانک دن ہمیشہ افغانوں کو یاد رہے گا، کیونکہ یہ وہ دن تھا جب وقت کی ظالم اور متکبر کفری طاقت (سوویت یونین) نے افغانستان پر حملہ کیا۔ اس دن اس نے لاکھوں افغانوں کی امیدوں کا چراغ گل کر ڈالا، ہزاروں مائیں، بہنیں اور بیویاں بیوہ، یتیم اور بے سہارا ہو گئیں اور بڑی تعداد میں بچے بے آسرا ہو گئے۔
افغانستان پر سوویتی افواج کا حملہ ایسے وقت میں ہوا جب افغانوں کو سکھ کی سانس لیے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا، وہ آنے والے آرام دہ اور خوشحال زندگی کے خواب دیکھ رہے تھے اور غربت و افلاس کے باوجود زندگی کا لطف اٹھا رہے تھے؛ لیکن سرخ لشکر کی اس یلغار نے افغانوں کی امیدوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔
روسیوں اور ان کے اتحادیوں کا افغانستان پر حملہ کرنے کا مقصد بہت پہلے سے طے تھا، افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم افغانستان کے مجاہد اور غیور مسلمان عوام سے روسی کفری فوجوں کی دشمنی، افغانستان کی اسٹرٹیجک اہمیت، افغانستان میں روسی اقتصادی مفادات اور افغانستان میں سیاسی مقاصد کو اہم عوامل قرار دیا جا سکتا ہے۔
روسیوں نے اپنے اس مذموم مقصد کے حصول کے لیے حملے سے پہلے افغانستان میں سیاسی مداخلت شروع کی، یہاں انہوں نے اپنی زرخرید اورغلام حکومت کے قیام کی کوششیں کیں اور بالآخر ۱۳۵۷ ہجری شمسی بمطابق ۲۷ اپریل ۱۹۷۸ء کو داخلی کمیونسٹوں (خلق ڈیموکریٹک پارٹی) کی مدد سے افغانستان کے اس وقت کے نظام، جس کی سربراہی سردار محمد داؤد خان کر رہے تھے، کو برطرف کردیا۔ خلقیوں نے سردار محمد داؤد خان کے خلاف فوجی بغاوت کی اور انہیں ان کے خاندان کے کچھ افراد کے ساتھ صدارتی محل میں قتل کردیا۔ اس کے بعد روسیوں نے عملی طور پر ۶ جدی ۱۳۵۸ بمطابق ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کو افغانستان پر باضابطہ طور پرحملہ کرڈالا۔
روسیوں نے افغانستان پر حملے کے دوران اپنے داخلی اجرتی تنظیموں (خلق اور پرچم والوں) کی مدد سے افغانستان میں اتنے مظالم و زیادتیاں کیں کہ اس دن کو افغانستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے نام سے جاناجاتاہے۔ انہوں نے افغانستان میں تقریباً دو ملین بے گناہ افغانوں کو شہید کیا، لاکھوں کو معذور اور زخمی کیا اور کروڑوں کو ہجرت پر مجبور کردیا۔
اس وقت کےسوویت افواج کا خیال تھا کہ وہ دیگرکفری ممالک کی طرح افغانستان میں اپنی طاقت، ٹیکنالوجی، انسانی و مالی وسائل اور اجرتی حکومتی اہلکاروں کی مدد سے وہ مستقل حکمرانی وقبضہ حاصل کرلیں گے، افغانستان کو ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنائیں گے اور اس جگہ سے وسطی ایشیا کے ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو مزید بڑھائیں گے۔ لیکن الحمدللہ، افغانستان کی مجاہد اور غیور عوام نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور وسائل نہ ہونے کے باوجود ان کے خلاف مسلح جہاد کا آغاز کیا۔
افغان غیور قوم نے اس جهادی سلسلے میں بے شمار قربانیاں پیش کیں اور شدید مشکلات کا سامنا کیا حتی کہ دینِ اسلام کے مقدس افکار ونظریات پر عمل پیرا ہوکر سوویتی افواج اور ان کے افغانی آلہ کاروں (خلق اور پرچم) کے ہاتھوں زندہ دفن ہوئے، ٹکڑے ٹکڑے کردیے گیے اور بہت سے افغان نوجوانوں کا آج تک سوراغ نہ مل سکا، ان کا صرف نام باقی ہے، ان کی زندگی یا شہادت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
اس سب کے باوجود افغانوں نے ہمیشہ کی طرح اپنی جهادی روح کو زندہ رکھا اور سوویتی حملہ آوروں کے خلاف جنگ میں کسی قسم کی سستی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا؛ بلکہ اپنی جان، مال اور خاندان کے ساتھ دین اور وطن کے دفاع کے لیے لڑے۔ سالوں کی محنت اور مصیبتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے مظلوم افغانوں کی قربانیاں قبول کیں اور ان کے ہاتھوں وقت کی ظالم کفری طاقت کو اس طرح ذلت آمیز شکست دی کہ تاریخ ہمیشہ اسے یاد رکھے گی۔
اللہ تعالیٰ نے سوویتی اتحاد کو اس طرح عبرت ناک شکست دی کہ اس کے بعد اس کا نام تک باقی نہ رہا؛ بلکہ یہ اتحاد ہمیشہ کے لیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ دین و وطن کے دشمنوں کے خلاف افغانوں کی ہر قسم کی قربانی قبول فرمائے اور اس غیور ملت کو ہمیشہ کے لیے آزاد، خودمختار، سربلند، متحد و متفق رکھے۔