ابو محمد مدنی ایک تاجکستانی شہری ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کی، اس کی مزید اصلیت کا علم نہیں، لیکن وہ مسلمانوں پر تکفیر اور ارتداد کے فتوے لگانے میں بہت بےباک تھا، اس نے فارسی زبان خراسانی خوارج کے لیے شیخ کا درجہ حاصل کیا، اس کے نام سے انہوں نے ٹیلی گرام چینل بنائے اور رات دن اس کے بیانات کو اس میں اپلوڈ کرتے تھے۔
لیکن مدنی اس وقت "برطانوی” بن گیا جب اس نے ماسکو کے ایک ہال پر داعش کے تازہ حملے کو فتنہ اور تاجکوں کے خلاف منظم سازش قرار دیا، اور اس حملے کی تردید میں لگ بھگ 43 منٹ کی آڈیو بیان جاری کیا۔ مدنی نے اپنے آڈیو بیان میں ماسکو میں ہونے والے حملے کو اس بنیاد پر دینِ اسلام کے اصولوں کے خلاف قرار دیا کہ اس میں غیر محارب خواتین، بچے اور بوڑھے لوگ مارے گئے تھے۔
اپنی تقریر میں، ابو محمد مدنی نے اس حقیقت پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی ہے کہ تاجکوں مٰں اتفاق نہیں اور جو بھی اور جس طرح بھی انہیں استعمال کرنا چاہے، استعمال کر سکتا ہے۔ اس نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مضبوط حکومت اور اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے تاجک عوام کو ہر کوئی استعمال کر رہا ہے اور بڑی طاقتوں کا آلہ بن چکے ہیں۔
اس آڈیو بیان کے جاری ہونے کے بعد داعش کے اکثر خوارج نے ابو محمد مدنی کی تکفیر کی اور اسے روس کا حامی قرار دیا، بعض دیگر نے خود کو اس بات پر مطمئن کر لیا کہ شاید مدنی نے یہ باتیں حالتِ اکراہ میں کی ہوں ممکن ہے اپنی باتوں سے دوبارہ رجوع کر لے ( جیسے پہلے بھی دیگر داعشی فکر رکھنے والے مبلغین نے ایسا کیا)۔
مدنی کی تقریر کو دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ خراسانی خوارج کے سرکاری اشاعتی ادارے العزائم نے تین زبانوں میں ( موتوا بغیظکم، رد بر سخنان جاہلانہ ابو محمد لندنی) کے نام سے 41 صفحات پر مشتمل ایک تحریر اور اس کے بعد ایک آڈیو بیان نشر کیا۔ تحریر میں خوارج نے آخری حد تک غیر محارب عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی اور ابو محمد مدنی کو روس کے زر خرید غلام، جاہل، ملحدین کے اقوال کا ترجمان، جاسوس اور اس جیسے دیگر القابات سے نوازا۔ تحریر کے مصنف نے ایک جگہ اس بات پر زور دیا کہ غیر محارب خواتین کا قتل جائز ہے، لیکن بعد میں اس نے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ماسکو حملہ آوروں نے خواتین کو قتل کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ خراسانی خوارج کے حامیوں اور جنگجوؤں کے درمیان بعض مسائل پر اختلافات ایک دوسرے کی تکفیر کی حد تک پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ قبل العزائم نے "ہمارا عقيده او منهج” کے عنوان سے ایک کتابچہ اس وقت نشر کیا جب ان کے بعض پیروکاروں نے کھلم کھلا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تکفیر کی۔ اس کے علاوہ جون ۲۰۲۳ء میں، داعش کے کچھ ارکان نے کہا کہ خراسانی خوارج کے محکمہِ قضاء کے حکم سے مذہبی مسائل پر اختلافات کی وجہ سے ان کے کچھ ساتھیوں کو پہلے قید کیا گیا اور بعد میں قتل کر دیا گیا۔