یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے نہیں عطا کرتا۔
تاہم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض مستثنیات بیان کی ہیں۔ مثلا بارہا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
- آپ کی نظر میں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ کفار کے بارے میں نازل شدہ آیات کو مسلمانوں پر لاگو کیا جائے؟
- آپ کی نظر میں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا کہ مسلمانوں کو کمزور اور بے اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی فکر کے ساتھ خلافت کا جھوٹا دعویٰ کیا جائے؟
- آپ کی نظر میں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ایک باطل نظریے کے ساتھ بیعت اور ان کے قبضے میں موجود سرزمین پر ہجرت نہ کرنے کے جرم میں کسی کا خون حلال، اس کا مال غنیمت ، اس کا نکاح فسق اور خود اسے واجب القتل قرار دے دیا جائے؟
- آپ کی نظر میں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا کہ کفار اور مسلمانوں کے درمیان معرکہ میں کوئی مسلمانوں کی پشت سے ان پر وار کر دے؟
- آپ کی نظر میں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا کہ کوئی اسلامی نظام کے خلاف اس لیے جنگ کرے کہ اس کا نظریہ اور سیاست ان کی خارجی فکر کے ساتھ میل نہیں کھاتی چاہے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیات ہی کیوں نہ شروع کی ہو؟
اس دنیا میں ایسے لوگ بھی رہے، ہیں اور آگے بھی آئیں گے کہ جن میں مندجہ بالا تمام چیزیں پائی جاتی ہیں۔ ہر زمانے میں یہ ایک خاص نام کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اور ہمارے زمانے میں ان کا نام داعش (خوارج) ہے۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو ماضی کے خوارج میں بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جنہوں نے پھر سے فرقۂ ناجیہ (اہل سنت والجماعت) کی جانب رجوع کیا ہو اور آج کے دواعش میں بھی ہمیں ایسے لوگ بہت ہی کم ملتے ہیں جنہوں نے پھر سے اہل سنت کی فکر اختیار کی ہو۔ ان کی ہدایت نہ پانے کی وجہ بھی یہ ہے کہ یہ لوگ راہ حق سے منحرف اور ظالم ہیں اور ظالموں کے بارے میں قرآن کریم میں بارہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ان کو ہدایت نہیں دیتا۔
ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جا سکتا ہے جو رحمت للعالمین نے ان کے لیے پسند کیا:
لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ
اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو ان کو اس طرح قتل کر دوں جس طرح قوم عاد کے لوگ قتل کیے گئے۔