گزشتہ روز پاکستانی فوج کے ترجمان جنرل احمد شریف نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاک افغان سرحد بہت طویل ہے جس کی یک طرفہ نگرانی ممکن نہیں۔ اس نے بطور دلیل کہا کہ پاکستان کی جانب سے سرحد پر ۱۴۰۰ کے لگ بھگ چیک پوسٹیں قائم کی گئیں ہیں جبکہ افغان فورسز کی صرف ۲۰۰ پوسٹیں ہیں۔ اس کے بقول یہ اس بات کی دلیل ہے کہ افغان حکومت سرحد کی نگرانی میں سنجیدہ نہیں۔
جنرل صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ پہلے اپنی تصحیح فرما لیں اور ڈیورنڈ لائن کی فرضی لکیر کو سرحد کہنا چھوڑ دیں، کیونکہ نہ تو یہ بین الاقوامی سرحد ہے اور نہ ہی افغان عوام نے اس فرضی اور جبری لکیر کو کھبی سرحد کے طور پر تسلیم کیا ہے ۔
جہاں تک دونوں ممالک کے درمیان موجود اس فرضی لکیر پر نگرانی کے لیے اقدامات کی بات ہے تو اس معاملے کی خرابی میں آپ کی انا، تکبر اور غیر سنجیدگی کا ہاتھ ہے، کیونکہ آپ نے باڑ لگائی، چیک پوسٹیں قائم کیں، کیمرے لگائے اور بھاری نفری تعینات کی مگر نہ تو اس معاملے میں افغان حکومت کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی انہیں اطلاع دی گئی۔ جہاں دونوں ممالک کو مل بیٹھ کر ایک منظم میکنزم بنانے کی ضرورت تھی وہی آپ نے اپنی طاقت دکھانے کی خاطر یک طرفہ اقدامات کئے اور اپنے طور پر بلند و بانگ دعوے کرکے ڈیورنڈ کی فرضی لکیر کو محفوظ سرحد ڈیکلیئر کردیا۔
اس کے علاوہ پاکستان نے اپنی اس نام نہاد سرحد کو ہمیشہ سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور ہر چند روز بعد بغیر کسی معقول دلیل کے راہداریاں بند کر کے افغان تاجروں اور عوام کو ایذا دینے اور افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ مگر اب دباؤ ڈالنے کا یہ حربہ بھی ناکام ہوچکا ہے اور افغانستان نے پاکستان پر اپنا انحصار کم کرتے ہوئے اپنی ضروریات دیگر ہمسایہ ممالک سے پوری کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔
اس سب کے باوجود امارت اسلامیہ افغانستان نے پاکستان میں قیامِ امن کے لیے اپنی طرف سے مخلصانہ اور بھرپور کوششیں کیں اور پاکستان کے خلاف برسر پیکار گروہوں کو پہاڑوں سے اتار کر مذاکرات کی میز پر لے آئی، مگر مذاکرات کا عمل بھی پاکستان کی حکومت اور جرنیلوں کی ہٹ دھرمی اور تکبر کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ ان کے رویے سے لگ رہا تھا کہ وہ معاملات کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
حکومتِ پاکستان کو بالاصل تو امارت اسلامیہ افغانستان کا مشکور ہونا چاہیئے تھا لیکن اس کے برعکس انہوں نے امارت اسلامیہ کو بدنام کرنے کے لیے عالمی فورمز پر پروپیگنڈہ شروع کر دیا جو پاکستانی حکمرانوں کی غیر سنجیدہ اور سطحی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستان نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ امارت اسلامیہ کے احسانات اور کاوشوں کے بدلے میں افغانستان کے اندر بد امنی پھیلانے کے لیے داعش جیسے خونخوار اور دہشتگرد گروہ کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اسے مراکز فراہم کئے اور اس کی قیادت کو پناہ دے کر گیسٹ ہاؤسز میں رکھا تاکہ انہیں افغان عوام کا خون بہانے کے لیے اچھی طرح استعمال کیا جا سکے۔
امارت اسلامیہ کے خلاف بغاوت کرنے والے عناصر کی حمایت کی گئی اور ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں پاکستان کے سرکاری دوروں کی دعوتیں دی گئیں، جو کسی طور بھی جائز اور قابل قبول نہیں۔