برطانیہ کا دیرینہ خواب تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر قبضہ کرکے سوویت یونین کے مقابلے میں ایک مستحکم پوزیشن میں آجائے اور اس کی پیش قدمی اور ترقی روک دے۔
اس مقصد کے لیے انگریزوں سے تین تاریخی جنگیں لڑی گئیں، تیسری جنگ میں برطانیہ کو شکست فاش ہوئی اور افغانستان کو استقلال اور ہر قسم کی غلامی سے آزادی کی راہیں ہموار ہوئیں۔
انگریزوں کی کوشش تھی کہ افغانستان ان کے زیر اثر رہے، یہاں ان کے فوجی اڈے ہوں اور اسی مقصد سے انہوں نے ۱۸۷۹ء میں یعقوب خان کے ساتھ گندمک کا معاہدہ کیا جس کے بعد انہوں نے فوجی اڈے بنانے شروع کردیے۔ خارجہ امور ان کے ہاتھ میں دے دیے گئے، جیسے وہ چاہتے احکامات جاری کرتے۔
یہ معاملہ کئی عشروں پر محیط تھا، بالآخر دیندار طبقے نے بغاوت کا علم بلند کیا اور شدید جنگوں اور قربانیوں کے بعد ۱۹۱۹ء میں انگریزوں کو شکست اور افغانستان کو آزادی حاصل ہوئی، اس جنگ کی قیادت حبیب اللہ خان کا تیسرا بیٹا امان اللہ خان کررہا تھا جو حبیب اللہ خان کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔
آزادی کے بعد بھی امان اللہ خان تخت پر براجمان رہا لیکن دینی اقدار وروایات کے بجائے وہ غیر ملکی تہذیب وثقافت کے دلدادہ تھا۔ کابل شہر کو دینی مرکز کے بجائے عیاشی وفحاشی کا اڈہ بناڈالا، خواتین نیم برہنہ کپڑے پہننے لگیں، تعلیم کے نام پر نوجوان لڑکیوں کو باہر ممالک بھیجا جانے لگا، وہ خود بھی کئی کئی مہینے غیر ملکی دوروں پر رہتا تاکہ وہاں سے فحاشی و عریانی کے نت نئے طریقے افغانستان درآمد کر سکے۔
۹ سال میں معاشرے کی صورتحال عوام خاص کر دینی طبقے کی برداشت سے باہر ہوگئی، ان تمام بے دینی، فحاشی وعریانی اور جمہوریت کو امان اللہ اور اس کے کاسہ لیس طبقہ تمدن اور ترقی کا نام دیتے رہے، بالآخر عوام کی بغاوت کے نتیجے میں اس کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہ یورپ بھاگنے پر مجبور ہوا، لیکن آج بھی اس کے زہریلے نظریات وافکار کے اثرات ہمارے معاشرے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔