داعش نے ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۹ء کے درمیان ایک متنوع پالیسی کے تحت اپنے آپ کو عظیم اور خطرناک ثابت کرنے کے لیے سخت محنت کی تاکہ اپنے اثرات کو عالمی سطح پر وسیع اور گہرا کرے۔ اس گروہ کی کوشش تھی کہ وہ اپنے آپ کو ایک عالمی اور ناقابلِ شکست خطرے کے طور پر پیش کرے۔
عسکری اور عملی میدان میں دہشت، ظلم اور بے رحمی کی پالیسی نے، جس میں کسی بھی قسم کے جرائم اور ظلم سے گریز نہیں کیا گیا، عوامی قتل، بے رحمی اور غیر انسانی طریقے سے پھانسی دینا، جلانا، پانی میں غرق کرنا اور درجنوں دیگر جرائم اس متنوع پالیسی کے عملی پہلو تھے۔
پالیسی کا دوسرا پہلو عملی میدان میں ہونے والے جرائم کو میڈیا کے ذریعے دہشت اور رعب میں تبدیل کرنا تھا، جس کے لیے انہوں نے سوشل میڈیا اور ویڈیوز کا استعمال کیا تاکہ اپنے طاقت کو بڑھا چڑھا کر دکھا سکیں۔ اپنے عروج کے دوران انہوں نے زیادہ تر اسی میڈیا طاقت پر انحصار کیا تاکہ اپنے آپ کو عالمی سطح پر ایک سنجیدہ خطرے کے طور پر پیش کر سکیں۔
زیادہ تر حکومتوں اور میڈیا نے، خاص طور پر مغربی ممالک نے داعش کی اس ’’ فعال اور وسیع ہونے‘‘ کی پالیسی کو مزید تقویت دی تاکہ وہ اپنےعسکری اقدامات، داخلی اور خارجی پالیسیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ منطقی طور پر، داعش کا وجود زمین پر ایک حقیقی خطرہ تھا، لیکن حقیقت میں اس گروہ کی اصل طاقت اور خطرہ جتنا بڑھا چڑھا کر دکھایا گیا، اس سے کہیں کم اور کمزور تھا۔
نام نہاد داعشی خلافت کے عروج میں یا خراسان شاخ کے عروج کے وقت ایسی کوئی مثالیں موجود نہیں کہ اس گروہ نے دنیا یا کسی مغربی ملک کے لیے بڑی سطح پر کوئی سنجیدہ خطرہ بناہو یا پھر کسی سرکاری ادارے پر بڑا اور منظم حملہ کیا ہو۔
اب جب کہ داعشی خلافت کی شکست کے کئی سال گزر چکے ہیں، اس کی شاخیں منتشر ہو چکی ہیں، خراسان شاخ مکمل طور پر شکست خوردہ ہے، اس کی قیادت اور تنظیم کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے، پھر بھی خراسان شاخ کو عالمی سطح پر ایک بڑے اور سنجیدہ خطرے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور میڈیا اور مختلف عالمی اداروں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
لیکن کیا واقعی داعش کی خراسان شاخ کا خطرہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے اپنے پروپیگنڈے اور دھمکیوں کو جواز بنایا جا سکے؟
مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کی میڈیا کی طرف سے خراسان شاخ کو غیر منطقی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی متعدد مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے بہت مہارت سے خراسان شاخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے اقدامات کو اہمیت دی۔ تاہم اس حوالے سے جو بات اہم اور قابلِ غور ہے، وہ یہ ہے کہ مختلف عالمی ادارے اور مغربی ممالک خراسان شاخ اور اس کی فعالیت کو سنجیدہ خطرے کے طور پر پیش کر رہے ہیں، یہی وہ کوششیں ہیں جن پر میڈیا بھی انحصار کرتا ہے اور داعش کے کمزور اور شکست خوردہ گروہوں کو دوبارہ طاقتور بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اس اجلاس میں امریکی نمائندے نے بھی خراسان شاخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اور اسے عالمی خطرہ قرار دیا۔ بعض ممالک کے نمائندوں نے مضحکہ خیز طور پر افغانستان کو داعش کا مرکز قرار دیا، حالانکہ ان ہی ممالک میں خراسان شاخ کے متعدد مراکز اور جنگجو موجود ہیں، جہاں وہ تربیت حاصل کرتے ہیں، انہیں فنڈنگ کی جاتی ہے اور ان سے مختلف منصوبوں کے تحت کام لیا جاتاہے۔
اگر زمینی حقائق اور افغانستان میں داعش خراسان کے وجود اور اس کی طاقت و فعالیت کو درج بالا افراد کے مبالغہ آمیز پروپیگنڈے سے موازنہ کیا جائے، تو دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت داعش کو افغانستان میں کسی طرح سے کوئی استحاکم حاصل ہے نہ ہی یہاں ان کا کوئی ٹھکانہ ہے، نہ ہی اس حوالے سے کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے، اسی طرح یہاں داعش کے پاس افرادی قوت ہے، اور نہ ہی افغان عوام کے ساتھ ان کا کوئی نسلی یا روحانی تعلق ہے۔
اس کے تخریبی سرگرمیوں اور حملے پہلے کی بنسبت صفر ہوچکے ہیں، اس حوالے سے داعش نے گذشتہ سالوں میں بھاری نقصانات اٹھائے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین سے کسی بھی ملک کو کسی سطح پر کوئی نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال ہی نہیں، اس کے برعکس یہاں اندرونِ ملک ہونے والی تمام تخریبی سرگرمیوں کی جڑیں ہمسایہ ممالک سے ملتی ہیں۔
داعش کی خراسان شاخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے کون فائدہ اٹھارہا ہے؟
عالمی اور مقامی طاقتیں اپنے خفیہ سیاسی اور اسٹرٹیجک مقاصد کے حصول کے لیے خراسان شاخ کے نام سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ افغانستان میں شرمناک عسکری شکست کے بعد، وہ افغانستان میں امن و استحکام اور اپنی شکست اور افغانوں کی کامیابی کو چھپانے اور افغان حکومت پر بالواسطہ دباؤ ڈالنے کے لیے داعش خراسان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔ اس کے ذریعے وہ اپنے منصوبوں کے لیے حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں، جس کے لیے یہ ایک مناسب اور قابل انتخاب پالیسی ہے۔
دنیا کی بڑی طاقتوں، انٹیلی جنس اور جاسوسی اداروں سے جڑا ہوا میڈیا بھی اپنے خفیہ مفادات کے تحت اپنے ذرائع کے فائدے کے لیے ہر قدم اٹھاتا ہے اور اس کی تشہیر کرتا ہے۔ ایسے میڈیا ذرائع سے داعش کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بھی اسی طرح کے خفیہ اور علانیہ مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔
مقامی اور علاقائی حکومتیں بھی داعش کے نام کو اپنے حریف ممالک اور مخالفین پر دباؤ ڈالنے اور مخصوص پالیسیوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس کی ایک اچھی مثال وہ غیر منطقی اور حقیقت سے دور بیانات ہیں جو ہمسایہ ممالک کے نمائندوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے آخری اجلاس میں خراسان شاخ کے حوالے سے دیے تھے۔
اگر ہم عالمی اداروں کی طرف سے داعش خراسان کے حملوں کے متاثرین کی تعداد کا موازنہ دنیا کے دیگر جنگوں اور تنازعات سے کریں، تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے حملوں کے نتیجے میں ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں خراسان شاخ کے حملوں میں مارے جانے والے افراد کی سالانہ اوسط 254 افراد ہے، جو کہ ان ہی مفاد پرست جانب دار اداروں کی طرف سے فراہم کی گئی ہے۔
داعش خراسان کے حملوں کے مقابلے میں روس اور امریکہ کی جارحانہ جنگوں میں ہونے والا جانی نقصان ہزار گنا زیادہ ہے۔ غزہ میں صہیونی حملے میں ہونے والا سالانہ جانی نقصان، خراسان شاخ کے حملوں میں ہونے والے جانی نقصان سے 141 گنا زیادہ ہے، جبکہ پاکستان کی داخلی جنگ میں ہونے والے سالانہ جانی نقصانات (تقریباً دو ہزار) خراسان شاخ کے حملوں کے جانی نقصان سے سات گنا زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں ہونے والے اندرون ملک جرائم میں سالانہ ہلاکتیں (24,000) داعش خراسان کی ہلاکتوں کے سالانہ اوسط سے تقریباً 84 گنا زیادہ ہیں۔
اس کے باوجود داعش خراسان کو دنیا کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور پالیسی ساز اجلاسوں میں اسے اولین ترجیح دی جاتی ہے۔
دوسری طرف، دیگر پراکسی گروہ اور ظالم حکومتوں کے خطرات بالکل نظر انداز کر دیے گئے ہیں جو فی الحال اپنے عوام کے ساتھ جنگ میں ملوث ہیں، ہر روز زمین اور فضاء سے عام انسانوں کو قتل کرتے ہیں، انہیں قید کرتے ہیں اور ان پر وحشیانہ تشدد کرتے ہیں۔
مختلف ممالک، عالمی اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا کی طرف سے داعشی گروہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی پالیسی جو حقائق سے کوسوں دور اور خفیہ سیاسی مقاصد کے لیے کی جا رہی ہے، نہ صرف ان ممالک اور تنظیموں کے لیے کوئی فائدہ نہیں رکھتی، بلکہ اس سے خطے اور دنیا کے لیے مزید مسائل پیدا ہورہے ہیں، سیاسی مسائل اور جنگوں کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔
داعش خراسان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی پالیسی اسلاموفوبیا (اسلامی خوف) جیسے منفی رجحان کو مزید تقویت دیتی ہے، انسانی معاشرتی مسائل کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اور حل کے مواقع، امکانات اور وسائل ضائع ہو جاتے ہیں۔
خراسان شاخ کی اس طرح کی عالمی تشہیر، اس گروہ کی صفوں کو مزید مضبوط کرتی ہے، ان کے افراد میں کامیابی کا اعتماد بڑھاتی ہے، وہ لوگ جو مختلف ممالک کی جابرانہ اور اسلام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے خود کو محکوم اور مظلوم محسوس کرتے ہیں، داعش گروہ ان کے لیے آزادی اور جدوجہد کا ایک مناسب اور مؤثر مرکز نظر آتا ہے، اور وہ اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یہی وہ ابتر صورتحال تھی جس کے نتیجے میں داعش کی نام نہاد خلافت میں بڑی تعداد میں اسلام پسند نوجوانوں کو اسلامی نظام کے تصور کے تحت مغرب سے عراق اور شام منتقل کیا گیا، جہاں وہ خارجی فکر سے متاثر ہو کر پھر انہی ممالک کی بمباری اور حملوں کے نتیجے میں ختم ہو گئے، اور بہت آسانی سے مغربی ممالک نے خود کو ان سے نجات حاصل کی۔
آخرکار یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ داعش خراسان ایک حقیقی خطرہ ہے، لیکن اس گروہ کو اتنا زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنا سیاسی اور تشہیری مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتیں، انٹیلی جنس نیٹ ورکس اور میڈیا اپنے مفادات کے لیے داعش خراسان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ اس ذریعے سے اپنی ناکام سیاست کو جواز فراہم کریں، خفیہ مفادات کو حاصل کرسکیں اور اپنے حریفوں پر بالواسطہ دباؤ ڈالیں۔
حقیقی اور بڑے خطرات کو پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ تشہیر کے بجائے منطقی تجزیے کی طرف رجوع کیا جائے۔ داعش کی حقیقت کو حقیقی اعداد و شمار، حقیقت پر مبنی شواہد اور خطے کی سیاسی صورتحال کی بنیاد پر پرکھا جانا چاہیے، نہ کہ ان پروپیگنڈوں کی بنیاد پر جو مخصوص مفادات کے لیے پھیلائے جاتے ہیں۔
ماضی کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے گروہوں کو غیرضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنا نہ صرف مسائل کے حل کے لیے مناسب طریقہ نہیں ہے، بلکہ یہ نئے مسائل اور مشکلات کا سبب بنتا ہے۔ اس کے بجائے، تاریخی تجربات سے سیکھنا چاہیے اور ان پالیسیوں کی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے جو داعشیت کے فروغ کے بنیادی اسباب سمجھی جاتی ہیں۔