۷۔ فتوحات میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا:
عثمانی سلطنت کے بانی عثمان بن ارطغرل کی فتوحات اقتصادی، عسکری یا کسی اور مفاد کے لیے نہیں تھیں، بلکہ ان کا مقصد دینِ اسلام اور اس کی کلمے کو پھیلانا تھا۔ اسی لیے تاریخ نویس احمد رفیق اپنے انسائیکلو پیڈیا (التاریخ العام الكبير) میں لکھتے ہیں:
’’عثمان بہت دیندار شخص تھے، وہ سمجھتے تھے کہ اسلام کا پھیلاؤ ایک مقدس فرض ہے، وہ ایک وسیع سیاسی فکر کے مالک تھے، عثمان نے اپنی سلطنت کی بنیاد صرف طاقت پر نہیں رکھی تھی بلکہ اسلام کی نشر و اشاعت سے محبت کی بنیاد پر رکھی تھی۔‘‘
مصر کے ایک عالم لکھتے ہیں:
’’عثمان بن ارطغرل کو اس بات پر پختہ یقین تھا کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے، انہوں نے اپنی تمام جسمانی اور ذہنی قوت کو اسی مقصد کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔‘‘
یہ عثمان کی کچھ اعلیٰ صفات تھیں جو حقیقت میں ایمان اور آخرت کے دن کی تیاری، مومنوں کے ساتھ محبت، غیر مسلموں اور گناہگاروں کے ساتھ دشمنی، اللہ کی راہ میں جہاد اور حق کی دعوت کے ساتھ ان کی طبعی محبت کے اثرات تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عثمان اپنے فتوحات میں ایشیائے کوچک کے علاقوں کے حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اسلام قبول کریں، ٹیکس ادا کریں یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔
اسی لیے ان میں سے بعض لوگوں نے اسلام کو قبول کیا اور کچھ نے ٹیکس دینے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن جو لوگ نہ تو اسلام قبول کرتے تھے اور نہ ہی ٹیکس دینے پر راضی ہوئے، عثمان نے ان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔
اسی طرح انہوں نے رومیوں کو پیچھے دھکیل دیا اور بہت سارے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلیے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور آخرت کے خوف کی برکت سے عثمان کی شخصیت میں سنجیدگی اور کشش موجود تھی، اسی وجہ سے ان کی طاقت ان کے عدل پر، ان کی حکومت، ان کے رحم دلی پر اور ان کی دولت ان کی عاجزی پر غالب نہ ہو سکیں۔ وہ اللہ کی مدد کے مستحق تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد اور غلبے کے اسباب فراہم کیے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے عثمان پر خصوصی فضل تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کو اچھی تدابیر، افواج کی تعداد، عظمت اور عزت کے ذریعے ایشیائے کوچک میں طاقت اور اختیار عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ کا عثمان پر خصوصی کرم تھا جس نے اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھول دیے اور بلند مقاصد کی تکمیل کی۔
اسلام کے فروغ سے محبت کی وجہ سے انہوں نے بہت بڑے کارنامے انجام دیے، انہوں نے اپنی تلوار سے دنیا کی عظیم فتوحات حاصل کیں، ایمان اور اچھے کاموں کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو جیتا، جس قوم پر انہوں نے غلبہ حاصل کیا، انہیں اسلام کی دعوت ضرور دی، اور اپنی سلطنت کے تمام علاقوں اور شہروں میں اسلامی اقدامات کو عملا نافذ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے عدل و انصاف کی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کی، مومنوں کے ساتھ بہت محبت تھی؛ جیسے مسلمانوں کو دل سے پسند کرتے تھے، اسی طرح کافروں اور گناہگاروں کو ناپسند کرتے تھے۔
عثمانی سلطنت کے قوانین
عثمانی سلطنت کا پورا دورِ حکومت عثمان بن ارطغرل کی زندگی کے جهاد اور دین سے متعلق تھا، ان کے ساتھ ہمیشہ علمائے اسلام موجود ہوتے تھے، اور ان کی سلطنت میں شریعت کے احکام نافذ کیے جاتے تھے اور نظم و ضبط کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا۔ عثمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی وہ آج بھی تاریخ میں موجود ہے اور ہم اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اس وصیت میں روایات اور شریعت کے وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر عثمانی سلطنت قائم تھی۔
جب عثمان بسترِ مرگ پر تھے تو اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہا:
’’اے بیٹے! ایسی چیزوں میں خود کو نہ لگانا جن کے کرنے کا اللہ تعالی نے تمہیں حکم نہیں دیا، اور اگر تم کسی کام میں مشکل میں پڑو تو علماء سے مشورہ لو اور ان سے مدد طلب کرو۔
اے بیٹے! فرمانبردار لوگوں کی عزت کرو، فوجیوں اور سپاہیوں کو انعامات سے نوازو، حکومت اور سلطنت کو شیطان کے پھندوں میں نہ پھنساؤ، ان لوگوں سے دور رہو جو شریعت کے خلاف کام کرتے ہیں، جان لو! ہمارا مقصد اللہ کی رضا ہے، تاکہ ہم جہاد کے ذریعے دنیا میں دین کی روشنی پھیلائیں، وہ باتیں کرو جو اللہ تعالی کی رضا کا سبب ہوں۔
بیٹے! ہم وہ لوگ نہیں ہیں جو ملک کی تباہی یا لوگوں کو غلام بنانے کے لیے جنگ کرتے ہیں؛ ہماری زندگی اور موت دونوں اسلام کے لیے ہیں، یہی وہ چیز ہے جو تمہیں حاصل کرنی ہے۔‘‘