فکری غلامی کی نشانیاں:
۱ :-بغیر سوچے سمجھے تقلید کرنا:
بغیر تحقیق اور آگاہی کے غیروں کے نظریات اور خیالات کو اپنانا۔
۲:- اپنی اسلامی ثقافت اور اقدار کی تحقیر:
اپنی دینی، ثقافتی اور فکری دولت کو بے وقعت سمجھنا اور دوسروں کے اقدار کو ترجیح دینا۔ یہ نہ صرف ایک سنگین غلطی ہے بلکہ بعض اوقات انسان کو اسلام کی برکتوں سے بھی محروم کر دیتی ہے۔
۳:- اپنی تاریخ اور تہذیب کو بھلا دینا:
اپنی تاریخی کامیابیوں اور اسباق کو فراموش کرنا اور دوسروں کی تاریخ کو ترقی کا واحد معیار سمجھنا۔ جیسے آج مسلمان چنگیز خان جیسے ظالم حکمرانوں کی تاریخ پڑھتے ہیں لیکن اپنے ہیروز جیسے صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کو بھلا چکے ہیں۔ کیا یہ اپنے اسلامی ورثے اور تمدن کے ساتھ ناانصافی نہیں؟
۴:- دوسروں کی تقلید کے نتائج:
بلا سوچے سمجھے تقلید کے سبب اپنی اصل پہچان کھو دینا اور معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننا۔
فکری غلامی کے اسباب:
۱:- تعلیمی اور علمی کمزوری:
علم اور تعلیم کی کمی جو آزاد سوچ کی بنیاد بنتی ہے۔
۲:- نوآبادیاتی اثرات (استعماری اثرات):
استعماری اقوام نے ہمیشہ زیر تسلط قوموں کی فکری غلامی کو فروغ دیا تاکہ ان پر سیاسی اور اقتصادی کنٹرول آسان ہو۔
۳:- اپنی اقدار سے ناواقفیت:
دینی اور ثقافتی اقدار کے بارے میں علم نہ ہونا۔
۴:- میڈیا اور پروپیگنڈے کا اثر:
میڈیا میں دوسروں کے نظریات اور ثقافتوں کو پرکشش بنا کر پیش کرنا اور اپنی ثقافت کو بے وقعت سمجھنا، غلامانہ ذہنیت کی نشانی ہے۔
فکری غلامی سے نجات کے طریقے:
۱:- علم اور تعلیم کا فروغ:
تعلیم، تحقیق اور علمی ترقی کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینا جو اسلام، اپنی ثقافت اور اقدار سے ہم آہنگ ہو۔
۲:- اپنی دینی اور اسلامی ثقافت کی پہچان:
اپنی دینی اور ثقافتی اقدار سے آگاہی حاصل کرنا اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنا۔
۳:- خودمختار اسلامی فکر کا فروغ:
ایسے نظریات کو فروغ دینا جو اسلامی اقدار کی خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی کی راہ ہموار کریں۔
۴:- نسلِ نو کی تربیت:
نئی نسل کو اسلامی فکر، تاریخ کی اہمیت اور اپنی شناخت کی قدر سکھانا، چاہے وہ میڈیا کے ذریعے ہو یا خاندانی اور سماجی تعلیم کے ذریعے۔
۵:- اسلامی زبان کا تحفظ:
اسلامی زبان، یعنی عربی زبان کی ترویج اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا۔