علمائے اسلام کی نظر میں خوارج کا حکم:
جیسا کہ ہم پہلے خوارج کی بعض صفات بیان کر چکے ہیں، کہ وہ قرآنِ کریم کی تلاوت تو کرتے تھے، مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ اسی طرح تاریخ خوارج کے بارے میں گواہی دیتی ہے کہ اگرچہ وہ ظاہری طور پر عبادت گزار تھے، لیکن ان کے دل اندھے، کان بہرے اور نفس شرور سے بھرے ہوئے تھے۔
خوارج کا گمان تھا کہ وہ حق پر ہیں، لیکن قرآنِ کریم کی تفسیر وہ اپنے نفسانی خواہشات کے مطابق کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’خوارج اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بدترین لوگ ہیں‘‘، کیونکہ وہ ان آیات کو جو کافروں کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، مسلمانوں پر چسپاں کرتے تھے۔
شیطان نے خوارج کو افراط اور غلو کے ذریعے دین سے باہر نکال دیا تھا، وہ شریعت کی حدود سے تجاوز کرتے تھے، اور عبادات میں بھی اعتدال سے ہٹے ہوئے رویے کے حامل تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’يَمرُقونَ مِنَ الدِّينِ مَروقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ‘‘ یعنی وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
علمائے کرام نے خوارج کے حکم کو دو پہلوؤں سے بیان کیا ہے:
۱۔ خوارج کے خلاف قتال (جنگ) کرنا
۲۔ خوارج کی تکفیر کرنا
خوارج کے ساتھ جنگ کرنا:
اس میں کوئی شک نہیں کہ خوارج کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے۔ یہ بات قرآن، سنت اور اجماع (امت کے اتفاق) سے ثابت ہے۔
قرآن کریم کی یہ آیت اس پر دلیل ہے:
’’وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنۢ بَغَتْ إِحْدَىٰهُمَا عَلَى ٱلْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا ٱلَّتِى تَبْغِى حَتَّىٰ تَفِىٓءَ إِلَىٰ أَمْرِ ٱللَّهِ‘‘
ترجمہ: اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ، پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اُس گروہ سے جنگ کرو جو زیادتی کر رہا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کر لے۔
(سورۃ الحجرات: آیت، ۹)
یہ ایک واضح حکم ہے کہ باغی گروہ کے ساتھ قتال (جنگ) کی جائے تا وقتیکہ وہ دوبارہ مسلمانوں کی جماعت کی طرف لوٹ آئے۔ خوارج بھی مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو چکے تھے اور اُن کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے تھے، اس لیے ان سے قتال واجب ہے۔
تاریخ میں جب بھی خوارج ظاہر ہوئے، ان کے خلاف جنگ کو واجب سمجھا گیا۔
احادیث میں بھی خوارج کے خلاف قتال (جنگ) کے وجوب کو بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث یہ ہے:
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا:
’’آخری زمانے میں ایک قوم آئے گی، جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے، وہ بہترین باتیں کریں گے، لیکن دینِ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ جہاں کہیں بھی انہیں پاؤ، قتل کرو، کیونکہ ان کے قتل میں قاتل کے لیے قیامت کے دن اجر ہے۔‘‘
علمائے کرام نے اسی حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خوارج کو قتل کرنا واجب ہے، اگرچہ وہ خود جنگ کا آغاز نہ بھی کریں۔
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’خوارج کو قتل کرنا واجب ہے، چاہے وہ زخمی ہی کیوں نہ ہوں، انہیں ختم کرنا چاہیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کا حکم دیا ہے اور قاتل کے لیے ثواب بیان فرمایا ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امت کے سلف، خلف اور تمام ائمہ کا خوارج کے خلاف قتال پر اتفاق ہے۔ خوارج کے خلاف جنگ اس لیے واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے امور دنیا و آخرت کو خراب کرتے ہیں، ان کے اتحاد کو توڑتے ہیں، اور دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کو کمزور کرتے ہیں۔‘‘
علامہ ابن ہبیرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’خوارج سے قتال کرنا مشرکوں سے قتال کرنے سے زیادہ اہم ہے، کیونکہ خوارج کے خلاف جنگ میں اسلام کی اصل کی حفاظت ہوتی ہے، جبکہ مشرکوں سے جنگ صرف فائدے کے لیے ہوتی ہے، اور اصل کی حفاظت فائدے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‘‘