ان کبیرہ گناہوں میں سے دوسرا گناہ جن میں خوارج مبتلا ہیں:
۲۔ جھوٹ بولنا:
اسلامی شریعت میں جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔ قرآنِ عظیم الشان اور احادیثِ مبارکہ میں جھوٹ بولنے کے برے انجام کو بیان کیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ ہمیشہ سچے لوگوں کے ساتھ رہیں اور جھوٹوں سے دور رہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ” (التوبۃ: ۱۱۹)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’إن الکذب يهدی إلى الفجور، وإن الفجور يهدی إلى النار‘‘
ترجمہ: جھوٹ انسان کو بدکاری کی طرف لے جاتا ہے، اور بدکاری انسان کو جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔
لیکن خوارج ان آیات اور احادیث کے برخلاف، اپنی انتہا پسندانہ عقیدے کی تبلیغ کے لیے لوگوں سے جھوٹ بولتے ہیں، اسلامی نصوص میں تحریف کرتے ہیں، حقائق کو چھپاتے ہیں، اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر طرح کے جھوٹ سے کام لیتے ہیں۔ وہ اپنی گمراہ کن ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے عام لوگوں کے ذہنوں کو الجھاتے ہیں اور انہیں جھوٹ سے بہکاتے ہیں۔
۳۔ دھوکہ دہی اور خیانت:
خوارج کا تیسرا بڑا گناہ خیانت اور دھوکہ دینا ہے۔ خیانت ایک بہت بڑا گناہ ہے جو معاشرے کی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ‘‘ (الأنفال: ۵۸)
ترجمہ: بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’إذا اؤتمن خان‘‘ (بخاری و مسلم)
ترجمہ: منافق کی نشانی یہ ہے کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے، تو وہ خیانت کرتا ہے۔
خوارج امت مسلمہ، اس کے رہنماؤں اور مسلمانوں کے درمیان خیانت کرتے ہیں۔ وہ اسلام کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ مسلمانوں سے عہد کرتے ہیں، پھر اسے توڑ دیتے ہیں۔ بے خبر لوگوں کو قتل کرتے ہیں، جو کہ کھلی خیانت ہے۔
۴:- دشمنوں کو خوش کرنا (فرح الأعداء)
یہ عمل بھی شریعت کی نظر میں ناجائز اور ایک نہایت خطرناک کام ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ شریفہ ایسے کاموں سے منع کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا” (آل عمران: ۱۲۰)
ترجمہ: اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں (دشمنوں کو) بُرا لگتا ہے، اور اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو وہ اس پر خوش ہوتے ہیں۔
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ دشمن مسلمانوں کی ناکامیوں اور آپس کی لڑائیوں پر خوش ہوتے ہیں، اس لیے ہر وہ عمل جو دشمنوں کی خوشی کا باعث بنے، وہ اسلام کے خلاف ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ’’دشمنوں کی خوشی‘‘ یا مسلمانوں کی مصیبت پر خوشی ظاہر کرنے کی حرمت کے بارے میں فرمایا:
"لا تُظْهِرِ الشَّمَاتَةَ لأخِيكَ، فَيَرْحَمَهُ اللَّهُ وَيَبْتَلِيكَ” (ترمذی، حدیث حسن)
ترجمہ: اپنے (مسلمان) بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار مت کرو، ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے اور تمہیں کسی آزمائش میں مبتلا کر دے۔
اگر کسی فرد کے دکھ پر خوشی منانا ناجائز ہے، تو سوچو کہ پوری امتِ مسلمہ کی ذلت، بربادی اور قتل عام پر کفار کی خوشی کتنے بڑے گناہ کی بات ہوگی!
خوارج دشمنوں کی خوشی کا باعث کیسے بنتے ہیں؟
خوارج مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں پیدا کرتے ہیں، اسلام کو بدنام کرتے ہیں، مسلمانوں کے خلاف خودکش حملے کرتے ہیں، کفار کے پروپیگنڈے کو سچ ثابت کرتے ہیں اور ان کو یہ بہانہ فراہم کرتے ہیں کہ ’’اسلام دہشت گردی کا دین ہے۔‘‘
اسی وجہ سے جب خوارج مسجدوں، بازاروں، اسکولوں اور عام لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں، تو کفار خوش ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے ہی ہاتھوں سے ایک دوسرے کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ عمل کھلے طور پر ’’دشمنوں کی خوشی‘‘ (فرح الأعداء) ہے، اور شریعت کی نظر میں بالکل حرام ہے۔