فلسطینی ایسے حال میں کیسے عید منائیں گے کہ جب قربانیوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچ چکی، ساڑھے تین لاکھ گھر تباہ ہو چکے۔ غزہ کو بارود اور تباہی نے بدنما بنا دیا ہے۔ دکانیں اور بازار نئے کپڑوں سے خالی ہیں۔ نہ تو عید کی نماز کے لیے کوئی مسجد سلامت ہے نہ ہی بچوں کے لیے کوئی عیدی۔۔۔
یتیم بچے اپنا وہ باپ کھو چکے ہیں جو صبح سویرے اٹھایا کرتا تھا ان کے لیے مٹھائی لاتا تھا اور اپنے ساتھ عید گاہ لے کر جاتا تھا۔
تاریخ میں شاید ایسا پہلی بار ہے کہ فلسطینی اپنی بے گھر زندگی میں ایسی بد مزہ اور بے رنگ عید منا رہے ہیں کہ جس میں انہوں نے اپنے گھر کے تمام افراد کھو دیے ہیں۔
فلسطینی عوام کا کہنا ہے کہ بچے ہم سے نئے کپڑے مانگتے ہیں لیکن ہم ان کی یہ خواہش پوری کرنے کے قابل نہیں۔
غزہ میں غاصب صیہونی حکومت کے مظالم کی وجہ سے اشیائے ضرورت ناپید ہیں اور مسلمان بھوکے رہ کر عید گزاریں گے۔
"رفح” شہر کے ایک بچے "سیف” نے اپنے والد "کمال” سے عید سے چند دن قبل کہا: "ابا جان! کیا یہ ممکن ہے کہ ہم عید پر اپنے گھر واپس چلے جائیں۔” اس کے والد ایک ایسے خیمے میں رہ رہے ہیں جس کا رقبہ تین میٹر بائی تین میٹر ہے۔ اس نے اپنا رخ اپنے بیٹے کی طرف کیا اور غمگین آواز میں جواب دیا: "بیٹا! وہ سلیم جسے ہم پیچھے گھر چھوڑ آئے ہیں کیا تمہیں لگتا ہے کہ ہم اسے دوبارہ زندہ دیکھ پائیں گے کیا تم عید کی خوشی ایسے وقت میں محسوس کر سکتے ہو جب تمہارے تین چھوٹے بہن بھائی شہید ہو چکے ہیں؟”
سیف کو گزشتہ سال کی چھوٹی عید یاد آ رہی تھی، جب پچھلے سال انہیں دنوں وہ اپنے ماں باپ اور تین چھوٹے بہن بھائیوں کے ہمراہ نئے کپڑے خریدنے گیا تھا۔ تب تمام سڑکیں عید کی مناسبت سے سجی ہوئی تھیں، اور آج وہ اپنے ارد گرد ان ہزاروں خیموں کو دیکھ رہا ہے جن میں ہزاروں مہاجرین زندگی بسر کر رہے ہیں۔
حکومت کے انفارمیشن آفس کے ترجمان "اسماعیل الثوابتہ” نے مصری میڈیا "الیوم السابع” کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا:
"جنگ میں قربانیوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچ چکی ہے جس میں ۳۳ ہزار شہید، ۷ ہزار لاپتہ، ۷۵ ہزار زخمی اور ۳۵ ہزار قیدی ہیں۔ ان قربانیوں میں ۷۳ فیصد عورتیں، بچے اور بوڑھے ہیں۔ تقریبا ۱۵ لاکھ لوگ اپنی جائے پناہ اور گھروں سے محروم ہو چکے ہیں، ایک ہزار سے زیادہ مسجدیں مدارس، سکول اور ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں۔ اسی طرح غزہ شہر اور دیگر شمالی علاقوں میں درجنوں عورتیں، بوڑھے، بچے اور بیمار شدید بھوک اور قحط کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔”غزہ میں شہری دفاع کے ترجمان "محمود بصل” کا کہنا ہے :
"فلسطینی مساجد اور گھروں کی تباہی کے بعد عید پر نہ تو کوئی جائے پناہ رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے دوستوں سے ملنے کے قابل ہیں۔ وہ عید کی آمد پر ہر وقت اسرائیلی کاروائیوں اور ہلاکتوں کے نتیجے میں موت کی گھڑیاں شمار کر رہے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں گھروں کی بھی تباہی سے قبل مساجد بالخصوص تباہ ہوئیں۔ اسی وجہ سے ان مبارک ایام میں مسلمانوں کے پاس تراویح اور نماز عید کی ادائیگی کے لیے کوئی جگہ نہیں اور غزہ کے جنوبی اور شالی علاقوں میں بے گھر ہونے والے فلسطینی ایک دوسرے سے مل بھی نہیں سکتے۔
غزہ میں حالیہ اعداد و شمار سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہاں ۶۰ فیصد گھر تباہ ہو چکے ہیں، ۳۶ مراکزِ صحت میں سے صرف ۱۲ مراکز سخت دباؤ تلے کام کر رہے ہیں۔ چھے لاکھ پچیس ہزار طلباء تعلیم کے حق سے محروم ہو چکے ہیں۔۴۹۵ میں سے ۳۹۶ سکولوں کو نقصان پہنچا ہے۔ غزہ کے جنوبی اور شمالی علاقوں میں تقریبا بیس لاکھ بے گھر شہری زندگی گزار رہے ہیں۔ انفراسٹرکچر، بجلی، ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس، سولر انرجی اور بجلی کی فراہمی کے وسائل کی تباہی کی وجہ سے ۲۳ بجے غذائی قلت اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے جبکہ ۵۶۳ سے زیادہ فلسطینی شہری بھوک کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ زیر زمین پانی کے ۸۳ فیصد کنویں بند ہو چکے ہیں۔
فلسطینی صحافی ٰیحیی یعقوبی کہتے ہیں:
"غزہ میں مسلمان عید بھی رمضان کی طرح غموں اور ساتھیوں سے جدائی میں گزاریں گے، غزہ کے لوگ ایک دوسرے سے محبت اور آپسی تعلق میں مشہور ہیں، لیکن اس بار شاید زیادہ تر لوگ زندوں کی بجائے قبروں کی زیارت کے لیے جائیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا:
"غزہ میں یہ جنگ سابقہ جنگوں سے بہت مختلف ہے۔ ۲۰۱۴ء میں بڑی جنگ کے باعث شہداء کی تعداد ۲۱۰۰ تھی، لیکن اس بار شہداء کی تعداد ۳۲ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جنہیں ہم نے سڑکوں، راستوں اور ہسپتالوں میں عوامی مقامات پر سپرد خاک کیا ہے۔
ہم رمضان اور عید پر ایسے حالات میں کیسے خوشی محسوس کریں، کہ ہر گھر میں غم و تکلیف پہنچ چکی ہے اور صرف "فرح” شہر میں چودہ لاکھ مہاجرین اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ گزین ہیں۔
ہم پہلی بار ایسی عید منائیں گے کہ اپنے گھروں سے دور پڑے ہیں، رمضان گزر گیا، لیکن ہم اس کا مزہ نہیں چکھ سکے، کیونکہ ہم چھ ماہ سے بجلی سے محروم ہیں۔
گزشتہ سالوں میں رمضان کے آخری عشرے میں غزہ کی سڑکیں لوگوں سے بھری ہوتی تھیں، تاکہ عید کا استقبال کریں اور گھروں کو سجائیں۔ ہر سال مساجد میں لوگ اعتکاف بیٹھتے تھے، لیکن اس سال تباہ ہونے والی مسجدوں کی تعاد ۱۲۰۰ تک پہنچ چکی ہے۔
ہر سال بچے عید کی آمد پر ہم سے نئے کپڑوں کا مطالبہ کرتے تھے، لیکن اس سال صرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کب ہم پھر سے اپنے گھر لوٹیں گے، کیونکہ اب ان کی یہی سب سے بڑی خواہش ہے۔”غزہ کے شمال میں مہاجر "عماد زقوت” کہتے ہیں:
"غزہ کے شمال اور جنوب میں بہت سے خاندان الگ ہو چکے ہیں، کہیں بھائی اپنے دیگر بہن بھائیوں سے جدا ہے، تو کہیں ماں اپنی اولاد سے جدا ہے۔ بہت سوں نے اپنے بیوی بچوں کو جنوب کی جانب بھیج دیا اور وہ شمال میں اکیلے رہ گئے، یہ زندگی کی سب سے مشکل عید ہے۔ ہر خاندان شہید، زخمی، لاپتہ یا قیدی کے غم اور جدائی کا شکار ہے، وہ گھر جو کبھی لوگوں سے آراستہ تھے اب ویران پڑے ہیں۔”
ہم اپنے رب کے سامنے دست بدعا ہیں کہ وہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر یہ ظلم و بربریت ختم کر دے۔ اپنے بدترین دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر دے۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے ہماری اپیل ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور بھائی چارے کے تحت اپنی تمام تر کوششیں اس جنگ کو روکنے کے لیے لگا دیں، اور اپنے گلے سے کفار کی غلامی اور چاپلوسی کی زنجیریں اتار پھینکیں۔
(اللهم إنا نجعلک في نحورهم ونعوذ بک من شرورهم)