مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنا یا اصطلاحاً "مظاہرۃ علی المسلمین” کے بارے میں حضرت حاطب بن ابی بلتعة کا واقعہ:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ پر حملے کا ارادہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حملے کے ارادے سے چند صحابہ کرام کو آگاہ کیا، باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صرف اتنا ہی علم تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہیں حملے کی تیاری کر رہے ہیں اور جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
ان چند صحابہ کرام میں حضرت حاطب بن ابی بلتعة رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے، جن کا صحابہ کرام کے درمیان ایک خاص مقام تھا، وہ غزوہ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے، وہ قریش کے قبیلے اور مکہ کے رہائشی نہ تھے بلکہ کسی اور علاقے کے باشندے تھے لیکن ان کی پرورش مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعة رضی اللہ تعالی عنہ اس منصوبے اور جنگی پلان سے متعلق جاسوسی کے مرتکب ہوئے اور قریش کو ایک خط بھیجا، اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خط کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً حضرت علی، مقداد اور زبیر رضی اللہ تعالی عنهم کو بھیجا اور فرمایا: تم روضہ خاخ نامی جگہ پر ایک عورت کو پاؤ گے، اس سے وہ مکتوب (خط) وصول کرو۔
یہ تینوں صحابہ کرام بہت تیز رفتاری اور تلوارمیان میں لیے روانہ ہوئے، جب وہ اس جگہ پہنچے تو انہوں نے اس عورت کو پایا، مگر اس نے خط دینے سے انکار کردیا؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ نہیں بولتے، خط دو ورنہ میں تمہیں بے لباس کردوں گا۔ اس پر اس بوڑھی عورت نے اپنے بالوں کے کٹوں سے وہ خط نکال کر صحابہ کرام کو دیا، صحابہ کرام نے وہ خط وصول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعة رضی اللہ عنہ سے فرمایا: حاطب! تم نے یہ کیا کیا؟ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے فوراً اعتراف کرتے ہوئے کہا: یا رسول اللہ! میرے بارے میں جلد بازی نہ فرمائیے، اللہ کی قسم! میں نے یہ عمل دین سے ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا، بلکہ میں ایک ایسا شخص ہوں جو قریش کا نہیں ہوں، لیکن قریش سے تعلق رکھتا ہوں، باقی تمام مہاجرین قریش ہیں اور ان کے اپنے خاندان ہیں، تو ان کے اہل و عیال کا خیال کرتے ہوئے میں نے بس یہ سوچا کہ قریش کے ساتھ حسن سلوک کروں تاکہ وہ میرے اہل و عیال کا خیال رکھیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یا رسول اللہ! یہ منافق ہے، مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کا سر قلم کردوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً حاطب نے سچ کہا، یعنی اس نے یہ عمل صرف اپنے ذاتی فائدے کے لیے کیا ہے، جو کہ اس نے بیان کیا، انہوں نے یہ عمل کفر یا ارتداد (یعنی غلط عقیدے) کی وجہ سے نہیں کیا۔
حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا قریش کے ساتھ یہ تعاون واقعی ایک سنگین معاملہ تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تھا، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا، بلکہ تحقیق کی، جب حضرت حاطب نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ میں نے یہ کام صرف دنیاوی اور ذاتی فائدے کی خاطر کیا ہے، میں مرتد نہیں ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کی تصدیق کی، تاہم یہ ایک خطرناک جرم اور گناہ تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سزا نہیں دی کیونکہ وہ بدری صحابی تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالی نے فرمایاہے:
"اعملوا ما شئتم قد غفرت لکم”
جو چاہو کرو، میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے غصے کی وجہ سے آنسو بہنے لگے، کیونکہ انہیں یہ بات بہت شدت سے محسوس ہوئی۔
"اعملو ما شئتم” سے مراد وہ عام گناہ ہیں جن کو انسان کسی وقت بھی انجام دے سکتا ہے، لیکن یہ کفر یا شرک نہیں ہیں، کیونکہ کفر اور شرک کسی بھی حال میں جائز نہیں ہیں، اور جو شخص ان کا ارتکاب کرے گا، وہ کافر ہوجائے گا۔ اس پر کسی بھی شخص کو استثنا حاصل نہیں ہے۔
اللہ تعالی اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتے ہیں:
’’لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُك‘‘(الزمر: ۶۵)
"اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے”۔
اور ایک اور مقام پر فرمایا:
’’وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ‘‘(المائدۃ: ۵)
"اور جو شخص ایمان کے بعد کفر کرے، اس کے اعمال ضائع ہو گئے”۔
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ کفر اور شرک کسی بھی حالت میں قابل معافی نہیں ہیں اور ان کا ارتکاب کرنے والا شخص اللہ کی ہدایت سے منحرف ہو جاتا ہے۔
اسی وجہ سے اہل سنت والجماعت کے چاروں فقہی مذاہب مسلمان جاسوس کو کافر نہیں کہتے، تاہم قتل کے حوالے سے ان میں اختلاف پایا جاتا ہے، حضرت حاطب بن ابی بلتعة رضی اللہ عنہ کے واقعے کی تفصیل بخاری شریف میں اس طرح آئی ہے:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ:
بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، قَالَ: "انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً، وَمَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا”. فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى الرَّوْضَةِ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ: "مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”.
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا حَاطِبُ مَا هَذَا؟” قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ بِمَكَّةَ، يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا، يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَمَا فَعَلْتُ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَقَدْ صَدَقَكُمْ”. قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ؟ قَالَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ”.
بخاری شریف میں حضرت حاطب بن ابی بلتعة رضی اللہ عنہ کے واقعے کا ایک اور مقام پر اس طرح ذکر آیا ہے:
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُصَيْنَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ، قَالَ: انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مَعَهَا كِتَابٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ، فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا حَيْثُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: الْكِتَابُ، فَقَالَتْ: مَا مَعَنَا كِتَابٌ، فَأَنَخْنَاهَا فَالْتَمَسْنَا، فَلَمْ نَرَ كِتَابًا، فَقُلْنَا: مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ، فَلَمَّا رَأَتْ الْجِدَّ أَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا، وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْهُ، فَانْطَلَقْنَا بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ.
فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ حَاطِبٌ: وَاللَّهِ! مَا بِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي، وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا لَهُ هُنَاكَ مِنْ عَشِيرَتِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَدَقَ، وَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا”. فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ: "أَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمْ الْجَنَّةُ، أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ”. فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ، وَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.