دوحہ معاہدے کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر
آپ حیران ہوں گے کہ میں نے کس طرح کا عنوان منتخب کیا، کیونکہ یہ مصنوعی ذہانت کا دور ہے، میں نے دوحہ معاہدے سے متعلق کچھ سوالات پوچھنا چاہے تھے، لیکن بات پھر اپنے اصل کی طرف لوٹ آئی، جیسا کہا جاتا ہے کہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘، امریکہ کو معصوم اور طالبان کو قصور وار ٹھہرایا، میں نے سوچا کہ ہاں، قصور ہمارا ہے، کیونکہ ہم نے تشہیری پہلو کو نظر انداز کیا، ہم اس وراثت کے حوالے سے شرعی طور پر مکلف ہیں کہ اس کی تشریح کریں اور حقائق کو بے نقاب کریں، معاہدہ/عہد اسلام کے لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے، اور اسلامی تاریخ میں اس کا ایک بڑا باب ہے جسے ہم "صلح حدیبیہ” جیسے عنوان سے سمجھ سکتے ہیں۔
میں نے مصنوعی ذہانت سے پوچھا کہ معاہدے پر کون سا فریق وفادار نہیں رہا؟ اس کا جواب بہت طویل تھا، مگر اس کا اختتام یوں تھا: طالبان کی طرف سے بین الافغانی مذاکرات کو ناکام بنانا اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا معاہدے کی اصل روح (امن اور استحکام) کے خلاف بڑے اقدامات تصور کیے جاتے ہیں، مگر طالبان کی امن کے حوالے سے ناکامی بہت واضح ہے۔
القاعدہ اور دیگر اداروں کے ساتھ تعلقات رکھنا اور ان سے نقصانات یا دھمکیاں آنا دو الگ الگ موضوعات ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم نے تعلقات کس کے ساتھ رکھے ہیں۔ ہماری بیس سالہ جدوجہد مکمل خودمختاری کے لیے تھی، اور اگر ہماری داخلی اور خارجی پالیسیوں میں غیر ملکیوں کی پسند شامل ہوتی، تو پھر ہمارے اور سابقہ جمہوریوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔
اگر کبھی طرفین کے تعلقات کو ایک دوسرے کے مخالفین کے ساتھ معاہدہ کی خلاف ورزی کے طور پر سمجھا جائے، تو اس وراثت میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کردار سب سے پہلے معاہدہ توڑنے والوں کا ہے۔ اب صرف یہ نہیں کہ انہوں نے امارت کے مخالفین کو پناہ دی ہے، بلکہ اپنے ملکوں میں ان کے کام کرنے کی مکمل اجازت بھی دی ہے اور ان کی حمایت بھی کی ہے۔
معاہدہ حریفوں کے درمیان نہیں، بلکہ غالب اور مغلوب کے طور پر کیا گیا تھا۔ ورنہ کہاں وہ پچیس سال پرانا امریکہ اور کہاں وہ زنگ آلود بندوق کا مالک طالب؟ یہ تو بالکل بے شرمی ہے، جو اپنی خلاف ورزیوں کی فہرست نہیں دیکھتے۔
بہتر ہوگا کہ یہاں ہم ان کے معاہدے کی خلاف ورزیوں کا ذکر کریں۔
معاہدے کے بعد انہوں نے کئی بار فضائی حملے کیے، اگر ہم ان سب کا ذکر کریں تو تحریر بہت لمبی ہو جائے گی، لیکن دو حملے مثال کے طور پر ذکر کیے جا سکتے ہیں۔
۱۔ ۲۹ اگست ۲۰۲۱: کابل میں ایک فضائی حملہ کیا گیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کابل میں داعشیوں کی پناہ گاہ پر بمباری کی گئی ہے، تاہم بعد میں پتہ چلا کہ اس حملے میں ہونے والے جانی نقصان میں زیادہ تر شہری تھے، خاص طور پر بچے۔
۲۔ یکم اگست ۲۰۲۲ء: امریکہ کے سابق صدر جو بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ کابل میں القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو نشانہ بنایا گیا ہے، مگر اس دعوے کی تصدیق کے لیے امریکہ نہ تو کوئی ٹھوس ثبوت پیش کر سکا اور نہ ہی القاعدہ کی طرف سے کوئی بیان جاری کیا گیا۔
امریکہ نے یہ وعدے کیے تھے کہ وہ امارت کے رہنماؤں کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالے گا، افغانستان کے ساتھ نہ صرف تعامل کرے گا بلکہ انسانی امداد بھی فراہم کرے گا، مگر اب تک نہ تو اس نے دہشت گردوں کی فہرست ختم کی ہے، اور نہ ہی اس نے رہنماؤں پر لگائی گئی پابندیوں میں کمی کی ہے۔ بلکہ اپنے مقاصد کے حصول اور امارتِ اسلامی پر دباؤ ڈالنے کے لیے مختلف طریقوں سے اپنی خواہشات کو مسلط کرنے کی کوشش کی ہے اور افغانستان کے حقوق پر قبضہ کیا ہے۔
اگرچہ امریکہ کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ معاہدے کو منسوخ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ہی اسے منسوخ کرنے دے گا، کیونکہ وہ منسوخی کے نقصانات سے خوفزدہ ہے۔ امارت کو ہر مادے اور شق میں پابند کیا ہوا ہے، مگر اس کی کوشش یہ ہے کہ امارتِ اسلامی کو معاہدے کے حوالے سے بدنام اور قصور وار ثابت کیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کے اس منصوبے کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے؟ اس کے لیے کافی کام کی ضرورت ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حاصل کردہ کامیابی کو دشمن غلط انداز سے نہ پیش کرے، تو ہمیں تاریخ کے صفحات میں اپنی ثابت قدمی، مذاکرات کے مسائل پر مشورہ، ہر مسئلہ/شق کو قیادت کے ساتھ شیئر کرنا، ان مسائل کو ماہرینِ شریعت کی خدمت میں پیش کرنا، اجازت کے بعد مخالف فریق کے ساتھ حل تک پہنچنا اور پھر معاہدے پر مکمل عملدرآمد کرنے جیسے تمام امور کو سپردِ قلم کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔
اس معاملے میں قیادت اور خاص طور پر مذاکراتی اراکین کی ذمہ داری بنتی ہے، انہیں اس حوالے سے متعلقہ امور پر تحریریں لکھنی چاہیے، ورنہ امریکہ خود کو دودھ کا دھلا کہے گا اور طالبان کو مورد الزام ٹھہرائے گا۔