داعش نے کبھی بھی شام اور عراق میں نصیریوں، لادین کردوں یا صلیبیوں کے خلاف محاذ نہیں کھولا، بلکہ ان کے زہر آلود خنجر ہمیشہ صرف مخلص مجاہدین کے پاک جسموں میں پیوست ہوئے ہیں۔ وہ مغربی جدید اسلحے اور شدت پسند رافضی افواج سے جنگ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ان کی بہادری صرف اس وقت ظاہر ہوتی تھی جب مجاہدین کی صفوں میں کوئی کمزوری نظر آتی تھی اور اسی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے وہ اپنے زہر آلود خنجر سے مسلمانوں کا خون بہاتے تھے۔
المیادین
ان کے قبضے میں آئے ہوئے علاقے، کفار کے خلاف جنگ کے ذریعے حاصل نہیں ہوئے تھے بلکہ اہل سنت اور جہادی گروپوں سے غداری اور سازشوں کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے۔ شام کے مختلف علاقوں میں داعش کے تسلط کے دوران دیرالزور صوبے کا المیادین شہر بھی ان کے قبضے میں آیا تھا۔ اس ظالم گروہ کا تسلط شام کی مقدس سرزمین پر مجاہدین کی صفوں کو کمزور کرنے کے ذریعے پھیلا تھا۔
المیادین کی جغرافیائی اہمیت:
المیادین دیرالزور صوبے کا ایک اہم شہر ہے، جو شام کے مشرقی حصے میں دریائے فرات کے قریب واقع ہے۔ یہ شہر، جو شام کی انقلابی تحریکوں کے آغاز سے پہلے ایک اہم تجارتی مرکز تھا، 2014ء میں داعش کے کنٹرول میں آیا۔ داعش کے تسلط کے بعد، المیادین ان کے لیے ایک اہم عسکری مرکز بن گیا، جہاں ان کے کئی کمانڈرز نے اس علاقے سے اپنی کمانڈ پوسٹ کے طور پر کام لیا۔
المیادین، داعش کے لیے کتنی اہمیت رکھتا تھا؟
۱۔ اسٹریٹجک مقام:
یہ شہر دریائے فرات کے قریب واقع تھا اور اہم تجارتی راستوں پر واقع ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی تھی۔
۲۔ آبادی:
المیادین داعش کے ارکان اور ان کے خاندانوں کے لیے ایک بڑا پناہ گزین مرکز تھا۔
۳۔ عراق کے قریب ہونا:
داعشی اس مقام سے اپنے جنگجوؤں اور اسلحے کو آسانی سے شام اور عراق کے درمیان منتقل کرسکتا تھا اور حتیٰ کہ عراق میں اپنے آپریشنز کی قیادت بھی کرسکتے تھے۔
داعش کے عروج میں جب رقہ شہر عالمی اتحاد کے حملے کے زیر اثر آیا، المیادین داعش کے کمانڈ مرکز کے طور پر کام کرتا تھا۔ کئی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ابو بکر البغدادی ایک طویل عرصے تک یہاں رہا تھا۔ المیادین، جو تین سال تک داعش کے قبضے میں رہا، ۲۰۱۷ء میں بغیر کسی خاص مزاحمت کے داعش سے خالی کروا لیا گیا اور نصیری بشاری حکومت اور ایران کی پراکسی ملیشیاؤں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔