عموما دعوت کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک عملی دعوت اور دوسری زبانی، اور ہر دعوت کا نتیجہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ عملی دعوت کا نتیجہ نسبتا زیادہ قوی اور پائیدار ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے کفار اسلامی نظام کی قیام میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس لیے کہ اگر حقیقی معنوں میں اسلامی نظام قائم ہو جائے تو مسلمانوں کا اجتماعی انتظام، قانون، عدل وانصاف اور باہمی اخوت ومحبت سے پوری دنیا متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی گی۔ دنیا کو اسلام سے دور رکھنے کے لیے عالم کفر نے جو کھربوں ڈالر خرچ کیے ہیں وہ سب ریت کے ذرے ثابت ہوں گے۔
آپ اندازہ لگائیں کہ ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ۱۳ سال تک دعوت دی جس کے نتیجے میں گنتی کے چند سو افراد دین اسلام میں داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن رات ایک کر کے اللہ کاپیغام پہنچایا، آپ صدق وامانت کا پیکر تھے جس کی گواہی مشرکین مکہ خود دیتے تھے، اس کے باوجود آپ کی دعوت پر سوائے چند افراد کے کسی نے لبیک نہ کہا۔
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی، اور آٹھ سال بعد جب فتح مکہ کا موقع آیا تو اس وقت آپ کے ہمراہ دس ہزار (۱۰،۰۰۰) صحابہ کرام تھے، اور گاؤں دیہاتوں میں جو رہ گئے تھے وہ ان کے علاوہ ہیں۔ پھر جب غزوۂ تبوک کے لیے عازم سفر ہوئے تو اس وقت تیس ہزار (۳۰،۰۰۰) صحابۂ کرام آپ کے ہمقدم تھے۔
ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ کسی کے اسلام لانے کے لیے اہل طائف جیسی محنت نہیں فرمائی، اس کے بغیر ہی جو کوئی بھی مدینہ منورہ کا انتظامِ حکومت، عدل و رواداری، امن و سکون دیکھتا یا سنتا وہ فورا سے حلقہ بگوشِ اسلام ہو جاتا، یہ سلسلہ اس وقت تیزی سے پھیلا جب مکہ فتح ہوا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔
اب بھی اگر کفار افغانستان میں اسلامی نظام سے ٹکر نہ لیں تو یہاں جان ومال کی حفاظت، امن وسکون کا بسیرا، بین الاقوامی سیکولرازم اور جمہوریت نامی ڈرامے ختم ہو جائیں گے۔ جس کے بعد ہر ملک کے باشندے اسلامی نظام کا مطالبے کریں گے۔
اسی مقصد کے لیے پوری دنیانے امریکہ کی سرپرستی میں ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر چڑھائی کی، اربوں ڈالر یہاں خرچ کیے تاکہ دوبارہ اسلامی نظام کا احیاء نہ ہوسکے، سینکڑوں خیراتی اداروں کے نام پر مغربی تہذیب و ثقافت کے علمبرداروں کی فوج ظفر موج بھی ساتھ لائے، جن میں یوناما اور سویڈن کا نام سرفہرست ہے۔
اس سب کے باوجود جب اللہ نے اپنے بندوں سے غیبی مدد و نصرت کا وعدہ کر رکھا ہے جس کی بناء پر پوری دنیا کی ٹیکنالوجی، ان کی مکاری و عیاری ناکام جبکہ چند منتشر، کمزور و ناتواں افراد جو ٹیکنالوجی میں صفر ہونے کے باوجود خلاف توقع کامیابی سے ہم کنار ہوئے، آج تک دنیا اس انجام پر حیران ہے۔
یہ کفار کوشش میں تھے کہ لوگوں کو یہ باور کروائیں کہ جو نظام طالبان یہاں نافذ کیے ہوئے تھے یا اب چاہ رہے ہیں وہ صرف طالبان کا نظام ہے، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں، یہ پروپیگنڈے اس لیے بھی کیے جارہے تھے کہ اگر اسلام اور اس سے جڑی اقدار و شخصیات کو انہوں نے توہین وتحقیر کا نشانہ بنایا تو مبادا عوام اس پر ردعمل نہ دکھائیں کیونکہ بظاہر وہ تو اللہ کی توہین نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ تو طالبان کے اصول و قوانین جیسے حدود وقصاص اور تعزیرات کی توہین کررہے ہیں، اسی طرح حجاب کا حکم اللہ اور کے رسول کا ہے لیکن یہ مغربی کفار اسے طالبان راہنماؤں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اسی طرح حدود و قصاص تو شریعت کے قطعی احکام ہیں لیکن کفار انہیں طالبان کے اصول بتلاتے ہیں۔