احمد منصور
امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام کے بعد بعض ممالک بالخصوص مغرب اس کوشش میں ہے کہ موجودہ نظام کو منہدم کر دے اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے گریز نہ کرے۔
امارت اسلامیہ کے بارے میں غلط پیشین گوئیاں کی گئیں، دباؤ ڈالا گیا، پابندیوں میں اضافہ کیا گیا، افغانستان کا حق غصب کیا گیا لیکن جب یہ ٰپلان اےٰ ناکام ہو گیا تو ٰپلان بیٰ کا آغاز کر دیا گیا۔
اب امارت اسلامیہ افغانستان کے لیے مسائل پیدا کرنے شروع کر دیے، کچھ عرصہ قبل پاکستان اور ایران سے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا اقدام ان ممالک کے نہیں بلکہ مغرب اور امریکہ کے حکم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا گیا۔ دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ امارت اسلامیہ افغانستان ابھی نئی اقتدار میں آئی ہے، شاید وہ مہاجرین کو سنبھالنے کے قابل نہ ہو، اور اس وجہ سے حکومت چکرا جائے گی اور پھر قوشتپہ کینال، کابل قندھار روڈ، سالنگ ٹنل اور نیو کابل جیسے منصوبے ٹھپ ہو کر رہ جائیں گے، لیکن ان کی توقع کے خلاف ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ قوشتپہ کینال کا پہلا فیز مکمل ہو چکا ہے اور دوسرے فیز پر کام تیزی سے جاری ہے، ۔سالنگ ٹنل اور کابل قندھار شاہراہ کے کئی حصوں کی بحالی ہو چکی ہے جب کہ بقیا حصے موسم سرما کی وجہ سے معطل ہیں اور موسم سرما کے بعد ان پر کام دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ جب اس زاویے سے بھی وہ ناامید ہو گئے تو انہں نے مذکورہ پلان کے دوسرے حصے پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا۔
جلاوطن اور مفرورین کے لیے فرانس، تاجکستان اور روس میں اجلاس منعقد کیے گئے، اس امید پر کہ امارت اسلامیہ افغانستان کو خوفزدہ کر سکیں، لیکن امارت اسلامیہ افغانستان نے اپنی سیاسی بصیرت سے ان سب چیزوں کو نظر انداز کر دیا اور دشمن حیران رہ گیا۔ چونکا دینے والی بات تب ہوئی جب امارت اسلامیہ افغانستان نے خطے میں اتفاق رائے پیدا کر لیا اور متعدد ممالک کے سفیروں کو مدعو کیا، کابل میں ایک تاریخی اجلاس منعقد ہوا، اس اجلاس میں شریک ممالک نے افغانستان کی موجودہ پر امن صورتحال اور امارت اسلامیہ افغانستان کے مثبت تعامل پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس پر امریکہ تو کیا پورے مغرب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، انہوں نے چاہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کا وہی پرانا ناکام نسخہ پھر نافذ کر دیں، اجلاس بلایا گیا اور امارت اسلامیہ افغانستان کو بطور ملک نہیں بلکہ ایک فرد کی حیثیٹ سے مدعو کیا گیا لیکن امارت اسلامیہ افغانستان نے شرکت سے انکار کر دیا۔ دو روز تک اجلاس جاری رہا، روس، چین اور ایران نے نمائندے کے تقرر کے لیے امارت اسلامیہ افغانستان کی رضامندی کو شرط قرار دے دیا، اقوام متحدہ اور امریکہ کو توقع نہیں تھی کہ امارت اسلامیہ افغانستان اس انداز میں شرکت سے انکار کر دے گی، کہ اجلاس بغیر کسی فائدے کے اختتام پزیر ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ نے مذکورہ موضوع پر دوسری بار بھی اجلاس طلب کیا لیکن نتیجہ پہلے اجلاس کی طرح منفی ہی رہا۔
مذکورہ بالا منصوبوں کے مقابل امارت اسلامیہ افغانستان کی ثابت قدمی نے ان منصوبوں میں شریک ممالک کو سخت اشتعال دلایا، اور انہوں نے اب ٰپلان سیٰ پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ جس کے تحت:
۱۔ افغانستان کے اس کے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کھڑے کرنا، جس کا ہدف یہ ہے کہ خطے اور دیگر دنیا کے ممالک کو امارت اسلامیہ افغانستان کے حوالے سے خوفزدہ کیا جائے۔
۲۔ عوام میں امارت اسلامیہ افغانستان کی مقبولیت ختم یا کم کر دی جائے۔
۳۔ بیس سال پرانے فسادیوں، ٹھگوں اور مغرب کے پیسوں پر چلنے والے منصوبے ٰداعشٰ کو ہم آہنگ کرنا۔
ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مغرب نے اس پلان پر عمل درآمد کے لیے پاکستان اور تاجکستان کا انتخاب کیا ہے۔ اور اس کا آغاز پاکستان کے افغان سرزمین پر حملے سے ہوا، اگرچہ امارت اسلامیہ افغانستان نے اس کا مناسب جواب دے دیا، لیکن مغرب مذکورہ ممالک کی عملی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور امارت اسلامیہ افغانستان کے لیے سردردی پیدا کرنے کی کوشش میں ہے۔ لیکن یہ پلان بھی اللہ کے فضل سے کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ ان شاء اللہ۔