پڑوسی ملک کی افغانستان کی سرحد کے قریب حالیہ نقل و حرکت اور امریکی فوج کے اعلیٰ افسران کی موجودگی شہ سرخیوں کی زینت بنی ہوئی ہے۔
معتبر علاقائی اور عالمی میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی خبروں کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے پاکستانی فوج نے امریکی افواج کے تعاون سے افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں میں وسیع پیمانے پر نقل و حرکت شروع کر رکھی ہے اور اکثر کی رائے میں یہ نقل و حرکت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔
پاکستان کے اعلیٰ حکام کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ملک کی فوج نے حال ہی میں ٹی ٹی پی سے لڑنے کے لیے "عزم استحکام” نامی آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ لیکن کس قیمت پر؟
یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستانی حکومت سخت اقتصادی بحران کا شکار ہے اور ۱۱۵ بلین ڈالرز سے زیادہ کی مقروض ہے اور تنہا جنگ کے اخراجات پورے نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ہفتے قبل امریکہ میں پاکستانی سفیر نے تحریک طالبان سے جنگ کی خاطر وہاں کے حکام سے عسکری اور مالی امداد کی درخواست کی جس کے بعد امریکی فوجیوں کی ایک تعداد کو افغانستان کی سرحد کے قریب دیکھا گیا۔
شاید پاکستان جہادی تحریکات کے خلاف اپنے اہداف کے حصول کے لیے شروع کیے گئے آپریشن عزم استحکام میں امریکی مدد و تعاون کا خواہاں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس جنگ میں پاکستان کے ساتھ معاشی اور عسکری شعبوں میں تعاون کرے گا اور اس کا ساتھ دے گا؟
بلاشبہ امریکہ آپریشن عزم استحکام میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ پاکستان اب میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) وہاں اسلامی نظام کے قیام اور شریعت کے نفاذ کے لیے لڑ رہی ہے اور اس لڑائی میں عزم اور ارادے کے ساتھ پاکستانی حکومت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔
پاکستانی حکومت کو ان لوگوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے جنہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر انحصار کیا، لیکن بالآخر تنہا رہ گئے اور خود کو مشکل میں ڈال دیا۔