ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، اس میں حق اور باطل کے درمیان جدوجہد ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے اور اس حوالے سے اس دور میں کئی چیلنجز پیدا ہوئے ہیں، حق اور باطل کے درمیان یہ جدوجہد جو صدیوں سے جاری ہے، ہمیشہ حق کی بالادستی اور حق و سچ کے پیروکاروں کی کامیابی پر منتج ہوئی ہے۔
ایسی دنیا میں جہاں مغرب اور مغرب نواز قوتوں نے زمین کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور وہ ایک آقا کی طرح زمین اور اس کے باشندوں پر حکمرانی کر رہے ہیں، آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں ایسے مسلمان اور گروہ موجود ہیں جو اس بالادستی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور غلامی کو قبول نہیں کرتے۔
جب ان طاقتور اور دولت مند قوتوں کے خلاف مسلمانوں اور حق کے متوالوں کی جدوجہد شدت اختیار کر گئی، تو مغربی اور استعماری سیاست دانوں نے یہ حقیقت سمجھ لی کہ وہ براہِ راست مقابلے میں ان تحریکوں کو کبھی بھی روک نہیں سکتے۔
اسی لیے وہ کافی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام کو اندر سے کمزور کیا جائے اور اسے ایسے زخم لگائے جائیں کہ وہ خود ہی بکھر جائے، چنانچہ انہوں نے کوشش کی کہ اسلامی دنیا میں موجود تحریکوں اور گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور انہیں اسلام مخالف اہداف کے لیے کرائے کے سپاہی کے طور پر استعمال کیا جائے۔
جب وہ مسلمانوں کے درمیان رہ کر اسلام کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے، اسی وقت اسلام کی روشنی اور اس کی تعلیمات مغرب تک پہنچ چکی تھیں، اس مقدس اور الہامی دین کا مطالعہ شروع ہو چکا تھا، اور دنیا اس یقین تک پہنچ چکی تھی کہ اسلام ایک خدائی دین ہے جو انسان کی بھلائی اور فلاح کے لیے آیا ہے۔
مسلمانوں کے معتدل اور صالح معاشرتی طرزِ زندگی کے مشاہدے اور مطالعے کے بعد مغرب میں اسلام قبول کرنے کا رجحان بے مثال طور پر بڑھ گیا تھا؛ ان طاقتور قوتوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر اسلامی عدل و انصاف ان کے علاقوں تک پہنچ گیا تو ان کی جعلی طاقت اور اقتدار میں کمی آجائے گی اور ان کی ظالمانہ حکمرانی ختم ہو جائے گی۔
اسی وجہ سے انہوں نے اپنی سرزمین پر اسلاموفوبیا کا نظریہ پھیلایا تاکہ لوگوں کو اس عدل و انصاف پر مبنی تعلیمات سے دور رکھا جا سکے اور اپنی حکمرانی کو طول دیا جا سکے، لیکن چونکہ یہ سب جھوٹ پر مبنی تھا، وہ جانتے تھے کہ ایک دن لوگ اس دھوکے کو سمجھ جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر ایسے گروہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جو ظلم و فساد کا راستہ اپنائیں اور لوگوں کے ذہنوں میں تباہی کے بیج بوئیں اور اسلام کو ایک متشدد اور تخریب کار دین کے طور پر متعارف کروائیں۔
تاکہ وہ اپنے لوگوں کو ان گروہوں کی ظالمانہ سرگرمیوں کا حوالہ دے کر یہ باور کرا سکیں کہ اسلام اور مسلمان ہونا یہی ہے، اور جو کچھ وہ تاریخ اور اپنے مطالعے میں اسلام کے بارے میں جان چکے ہیں، وہ محض چند مسلمانوں کا عمل اور ایک غلط فہمی ہے۔
داعش، جو ایک ظالم اور جابر ذہنیت رکھنے والا گروہ تھا، ان طاقتوں کے ہاتھوں ایک مہرے کی طرح استعمال ہوا تاکہ ان کے فاسد نظریات اور انسانیت دشمن کارروائیوں کے ذریعے دنیا کو اسلام سے متنفر کیا جائے اور اسلام کی پاکیزہ اور درست راہ کو وحشت اور ظلم کے طور پر پیش کیا جائے۔
داعش نے اس منصوبے کے لیے دنیا میں ایک بہترین موقع فراہم کیا، اور شاید اسی مقصد کے لیے اسے وجود میں لایا گیا تھا۔