جس دن سے صہیونی جارحیت نے غزہ کی مظلوم زمین پر وحشیانہ یلغار کا آغاز کیا، اُس دن سے لے کر آج تک، معصوم بچوں کی سسکیاں، غمزدہ ماؤں کی آہیں اور بےآسرا فلسطینیوں کی فریادیں ہر زندہ مسلمان کے دل کو چیرتی آرہی ہیں۔
اس دوران، ہزاروں گھر خاکستر ہو گئے، بےشمار خاندان صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے، اور ان گنت دل چھلنی ہو گئے؛ اور یہ سب کچھ صرف اس جرم پر کہ وہ مسلمان تھے، اور ظلم کے خلاف سینہ سپر۔ اس بےمثال انسانی المیے کے سائے میں، ایک حقیقت پہلے سے بڑھ کر نمایاں ہوئی کہ امتِ مسلمہ آج بھی زندہ ہے!
اور اس زندہ امت میں، تمام تر مشکلات کے باوجود، افغانستان کا نام ایک درخشندہ ستارے کی مانند چمک رہا ہے۔
یہ وہی افغان عوام ہیں جو، معاشی تنگدستی، بین الاقوامی دباؤ، اور سہولتوں کی شدید کمی کے باوجود، غیرت، حمیت اور ایمان کے اس محاذ پر کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔
یہ سچ ہے کہ آج افغانستان کی عوام غزہ کے بھائیوں کے ساتھ ہتھیار اٹھا کر محاصرہ توڑنے کی قوت نہیں رکھتے، لیکن مالی جہاد کے میدان میں انہوں نے اپنی محبت اور اخوت کا ایسا عملی مظاہرہ کیا ہے، جو پوری دنیا کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔
صرف گزشتہ ایک ماہ میں، درجنوں خیراتی ادارے، علماء کرام، نوجوان، دکاندار، حتیٰ کہ اسکول کے معصوم بچے بھی، دامے، درمے، سخنے میدانِ عمل میں اُتر آئے؛ اور اپنے خالی ہاتھوں سے صدائے یقین بلند کی: ’’ہمارا دل اہلِ غزہ کے ساتھ دھڑکتا ہے‘‘!
جی ہاں! ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق، صرف افغانستان کے دس صوبوں میں پچاس ملین افغانی سے زائد رقم فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے جمع کی گئی ہے؛ یہ وہ امداد ہے جو بااعتماد اداروں کے ذریعے غزہ کے مظلوم عوام تک پہنچائی گئی، اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
مگر اب، تاریخِ امتِ مسلمہ میں ایک بے مثال منظر جنم لے رہا ہے؛ ایک ایسا منظر جو سچے دل سے، افغان قوم کے فلسطینیوں، بالخصوص اہلِ غزہ کے ساتھ اتحاد، اخوت اور ہمدردی کو زندہ تصویر کی صورت پیش کر رہا ہے۔
افغانستان کے بیشتر صوبوں میں، لاکھوں کی تعداد میں عوام فلسطین کے حق میں سڑکوں پر نکلے ہیں؛ یہ محض احتجاجی ریلیاں نہیں، بلکہ یہ آوازِ حق، افغان عوام کا ضمیر، اور ظلم کے خلاف ایک بیدار صدائے احتجاج ہے، جو دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے: ’’ہم وہ قوم نہیں جو ظلم پر خاموش رہیں؛ اگر ہمارے ہاتھ باندھ دیے جائیں، تب بھی ہماری آواز خاموش نہ ہوگی‘‘!
یہ وہ قوم ہے جس نے خود ظلم و ستم کا زہر چکھا ہے، جس نے مغربی جارحیت کے سائے تلے اپنی تاریخ کے بدترین ایام گزارے، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل، ایمان، استقامت اور قربانی کے ذریعے بالآخر قابض قوتوں کو شکست دی، اور عزت و آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
آج بھی ہمیں یقین ہے کہ اہلِ غزہ؛ جو محاذِ جنگ کے مجاہد ہیں — آخرکار سرخرو ہوں گے، چاہے دشمنانِ اسلام کو کتنا ہی ناگوار گزرے؛ کیونکہ ربِ ذوالجلال کا وعدہ اٹل ہے:
﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾
ترجمہ: اور یہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اہلِ ایمان کی نصرت کریں۔
صہیونی ریاست کو یہ جان لینا چاہیے کہ بیدار ضمیر انسان اشغال کو کبھی نہیں بھولتا، اور افغانستان کی یہ غیور ملت؛ اپنے عظیم جہادی ورثے کے ساتھ ہر محاذ پر اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے:
خواہ وہ مالی مدد ہو، دعا کی طاقت ہو، یا جب وقت آئے تو میدانِ جہاد ہو!
آخر میں اتنا ہی کہیں گے کہ یقیناً کامیاب وہی ہوگا جو مظلوم ہو مگر باعزت و ثابت قدم ہو — اور ایک دن ضرور آئے گا، جب ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا مسجد الاقصیٰ سے آزاد فضاؤں میں گونجے گی… ان شاء اللہ!