اکیسویں صدی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے نئے آپریشنز کا اعلان کیا، ان آپریشنز کا بنیادی ہدف اپنے مخالفین کا خاتمہ تھا۔
انہیں روئے زمین پر مسلمان کے سوا اور کوئی ایسا نظر نہیں آیا جو ان کے اقتدار کو برقرار رکھنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہو۔ اسلامی ممالک میں جنگ شروع کرنے کے حوالے سے اس نے تمام منصوبے تیار کر لیے، کچھ ممالک میں اس نے امت کو دبانے کی خاطر خود داخل ہونے کے منصوبے بنائے اور کچھ ممالک میں اس نے داعش جیسے پراکسی گروپ بنانے شروع کر دیے۔
داعش اور اس جیسے دیگر پراکسی گروپوں نے بھی ان کے وجود کے لیے زمین سازی کی اور اسلام کو بھی بدنام کیا۔ امریکہ کو بھی اپنی براہ راست جنگ کی نسبت یہ طریقہ بہتر نظر آیا کہ اس کے منصوبے داعش آگے بڑھائے۔
منصوبے پر عمل درآمد کا وقت آن پہنچا، امریکہ نے عراق و افغانستان پر حملہ کر دیا لیکن اس کے پاس حملے کے جواز کے لیے کوئی بہانہ نہیں تھا، تو مجبورا اس نے افغانستان میں امارت اسلامیہ پر غیر ملکی مجاہدین کے حوالے سے دباؤ ڈالنا شروع کیا، اور انہیں حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیا، لیکن اصل مقصد جنگ کی راہ ہموار کرنا تھا، تب اسی مسئلے کی وجہ سے جنگ کا آغاز ہو گیا۔
اکیسویں صدی میں معرکۂ ایمان و مادیت میں لوگوں کی اکثریت مادیت کا ساتھ دیتے ہوئے اور اقلیت ایمان کا ساتھ دیتے ہوئے میدان میں اتری، یہ جنگ دو دہائیوں تک جاری رہی اور بالآخر قلیل تعداد والا با ایمان گروہ فتحیات ہوا۔ الحمد للہ۔
لیکن گزشتہ بیس سال کے اس استعماری دور میں امریکہ اور داعش کے بعض اہداف تھے جیسے:
۱۔ اسلام کے ظاہر اور معنی میں تحریف
یعنی اسلام تو ہو لیکن نامکمل اسلام ہو، تمام احکامات میں تحریف کر دی جائے، اور اسلام بس برائے نام ہی رہ جائے۔ وہ مسلمانوں کے لیے ایسا اسلام چاہتے تھے کہ جو پشتو محاورے (ہندو تھک گیا اور خدا بھی ناراض) کی مصداق ہو، یعنی وہ اپنی دانست میں اسلام پر عمل پیرا ہو لیکن در حقیقت خدا کو ناراض کر رہا ہو۔ اس مقصد میں امریکہ کی خاطر داعش نے بہت کردار ادا کیا کیونکہ اس نے مسلمان کے لبادے میں اسلام کے خلاف تخریب کاری کی۔
۲۔ مسلح مخالفین کا خاتمہ
دورِ حاضر میں دنیا امریکی بالادستی کے سامنے سر تسلیم خم کر چکی تھی، کوئی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ٹکرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا،لیکن امارت اسلامیہ کی حکومت اور ان کے ساتھ دیگر مہاجر ساتھیوں کو امریکہ اور اس کی فوجی طاقت کا کوئی خوف نہیں تھا، انہوں نے اپنے ایمان کے بل بوتے پر امریکی نظام کو چیلنج کیا، یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے انہیں ختم کرنے کی ٹھان لی، کیونکہ یہ وہ قوت تھی جو صرف امریکہ ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام یہودیوں کے لیے بھی خطرہ تھی اور اسلامی نظام کو عروج تک پہنچا سکتی تھی۔ دوسری جانب خود داعش نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہزاروں نوجوان ضائع کر دیے، جہاد کے نام پر انہیں ناجائز جنگوں میں جھونک دیا، اور امت کے بڑے بڑے علماء اور غازیوں کو شہید کر دیا، جبکہ یہ کام امریکہ کے لیے بہت مشکل بلکہ ناممکن تھا۔
۳۔ عالم اسلام کے محلِ وقوع سے فائدہ اٹھانا۔
اسلام کے زیر اثر ممالک چونکہ ایک مرکزی مقام، تیل کے بڑے زخائر، مشہور شاہراہیں اور دیگر دنیا کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات رکھتے ہیں، اس وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے خطے پر تسلط حاصل کیا تاکہ ان تمام مواقع سے، بالخصوص خام مواد سے چین اور روس کی جگہ خود استفادہ حاصل کریں۔ چونکہ وہ یہ کام اپنی معاشی قوت بڑھانے کے لیے کر رہا تھا اس لیے ان علاقوں میں جہاں اس کے پاس اپنی موجودگی کا کوئی بہانہ نہیں تھا، لیکن اسے ان علاقوں کی ضرورت بھی بہت زیادہ تھی، تو اس نے داعش کو کھڑا کر کے ان علاقوں میں اپنے مذکورہ اہداف حاصل کیے۔
۴۔ امریکی بالادستی کی بقا
اپنی بالادستی کی بقا کی خاطر اس نے دیگر تمام اقوام کی شناخت مسخ کرنے کی کوشش کی انہیں تاریخ کے معاملے میں گمراہ کیا، جمہوریت نامی سیاسی ماڈل کو ترقی کے نام پر ان پر مسلط کیا، اس ناپاک جمہوریت پر عمل درآمد کی خاطر زمین سازی کی، ایک دین کے پیروکاروں کو کم کرنے کی خاطر انہیں کے دین کا لبادہ پہنا کر اپنے لوگوں سے کام لیا، تاکہ وہ دین بدنام ہو جائے اور لوگ جمہوریت کی جانب مائل ہو جائیں، جیسے داعش جو اسلام کا چہرہ داغدار کرنے کا باعث بنی۔
۵۔ عالمگیریت کے نام امریکنائزیشن
عالمگیریت کے نام پر تیسری دنیا یا غریب ممالک کے شہریوں کو امریکنائز کیا، تاکہ اپنے نظریات کو وسعت دے سکے۔
اس طرح کے اور بہت سے اہداف، جیسے اپنے اسلحہ کے لیے منڈی تلاش کرنا، فحاشی عام کرنا، زمین پر فساد عام کرنا، ایشیائی ممالک کے درمیان اپنا عسکری وجود رکھنا وغیرہ، بھی تھے جن کے حصول کے لیے اس نے اس بیس سالہ جنگ کے لیے کمر کس لی۔ لیکن الحمد للہ ان اہداف کے حصول میں اسے مجاہدین کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور خطہ ان کے تسلط سے آزاد ہو گیا۔
یہ عظیم افتخار تمام مجاہدین اور ان کے خاندانوں اور عوام کو مبارک ہو۔