ریاستِ پاکستان افغانستان کے سابقہ ( جمہوری) حکومت کی پالیسی اور نقش قدم پر گامزن  

ازقلم مفتی ابو حارث : فاضل ومتخصص جامعہ اسلامیہ مخزن العلوم کراچی

#image_title

حالات سے باخبرحضرات یہ بات اچھی جان چکے ہوں گے کہ پاکستان میں دو بڑی قوتوں ( تحریک طالبان پاکستان اور سیکیورٹی اداروں) کے درمیان جس طرح عسکری میدان کی لڑائی عروج پر ہے، اسی طرح میڈیا کے محاذوں پر بھی فریقین خوب سرگرم نظر آرہے ہیں ۔

ایک طرف ٹ ٹ پ کے ورکرز روز مرہ کی بنیاد پر درجنوں سیکیورٹی اہلکاروں کو مار رہے ہیں، ، تو دوسری جانب سیکیورٹی ادارے ٹ ٹ پ کے خلاف ملک کے طول وعرض میں مسلسل چھاپوں اور آپریشنوں میں مصروف ہیں ۔ یعنی سرزمین پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا ایک میدان کار زار بن چُکا ہے ، اور حالات سن 2013 سے بھی بھیانک شکل اختیار کر چکی ہے ، ملک کی سیاسی ، اور دفاعی صورتحال اس نہج پر تقریبا پہنچ چکی ہے، جس نہج پر اشرف غنی کا ادارہ (جمہوری حکومت ) پہنچ چکا تھا،

اشرف غنی کے ادارہ نے سقوط کے آخری مراحل میں دو کاموں کو خوب توجہ دی ، اور بڑی دلیری سے انجام دئیے ، اور یہی وہ اسباب ہیں جنکے اختیار کرنے سے کوئی بھی حکومت زوال اور شکست سے دو چار ہوسکتی ہے ۔

پہلاکام! اشرف غنی کے ادارہ نے پہلاکام یہ کیا کہ طالبان کے مقابلہ میں جہاں جہاں انکی رٹ کمزور ہو جاتی اور طالبان کا سامنا کرنے سے عاجزآتے تو بے چارے عوام پر اپنی بھڑاس نکالتے ، اندھا دھند بمباریاں کرتے ، عوامی آبادی ، بازاروں اور مساجد کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنادیا جاتا ، توپ خانہ کا اسقدر بے دریغ استعمال کیاجاتا کہ بستیوں کی بستیاں ویرانوں میں بدل ڈالتے ، تاکہ عوام تنگ اور پریشان ہوں اور طالبان کو اپنے مساجد ،حجروں اور محلوں میں رہنے نہ دیں ، اور علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں ۔ لیکن قربان جاؤں افغان قوم کی دینی غیرت اور قومی حمیت پر کہ انہوں نے تمام مظالم برداشت کرکے طالبان کے خلاف کسی قسم کے مخالف سرگرمی میں حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔ افغان قوم کے صبر و ثبات کا ثمرہ پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ آج وہاں ( افغانستان میں) ایسی مثالی امن قائم ہے کہ جس کی نظیر یورپ وامریکہ اپنی کئی سو سالہ تاریخ میں دکھانے سے قاصر ہیں ۔

ریاست پاکستان نے اشرف غنی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ سب مظالم قبائلی عوام کے ساتھ روا رکھے ہیں جو اشرف غنی کے ادارے نے افغانوں کے ساتھ روا رکھا تھا ۔

خیبر کے وادی تیراہ ” پیر میلہ ” میں لوگوں سے بھرے بازار میں ڈرون حملہ کرکے سکول اور مدرسے کے بچوں سمیت کئی دکانداروں کو نشانہ بنایا گیا ۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اس نوعیت کے کئی ڈرون حملوں میں عام آبادی کو ھدف بناکر بچوں بوڑھوں اور خواتین کو بھی نہایت ہی بےدردی کیساتھ شھید کیا گیا،

اگر پاکستانی عوام اور بالخصوص خیبر پختونخوا کے اقوام بھی ریاست پاکستان کے مظالم کے مقابلے میں افغانوں کی طرح استقامت دکھائے تو پاکستان میں بھی افغانستان جیسے مثالی امن وامان قائم ہونے میں دیر نہیں لگے گی ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔

دوسرا کام! اشرف غنی کے ادارہ نے دوسرا کام یہ کیا کہ دولتی سطح پر انہوں نے ذرائع ابلاغ ( میڈیا) پر طالبان کے خلاف خوب زھر اگلنا شروع کیا ، اور طالبان کو بدنام کرنے کے لئے کئی حربے استعمال کئے ، مثلآ ! افغان طالبان آئی ایس آئی کے پالے ہوئے ہیں ، اور پاکستانی اداروں کے اغراض و مقاصد کی خاطر افغانیوں کو ماررہے ہیں ، اور یہ جہاد نہیں بلکہ ایک کاروبار ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ تو کیا ان جیسے بے بنیاد پروپیگنڈوں نے انکو کوئی فائدہ دیا ؟ یا انکا فاسد جمہوری نظام برقرار رہا ؟

اور کیا ان پروپیگنڈوں سے طالبان کی ساکھ کو کوئی نقصان پہنچا ؟ آج پروپیگنڈوں والے کہاں ہے ، اور طالبان عالیشان کہاں ہے ، افغان قوم کے خیر خواہ اور ملک میں امن وامان کے رکھوالے کون ثابت ہوئے ؟

قارئین کرام! اسی ناکام پالیسی کو پاکستان کی ریاستی بدمعاشوں نے جوں کے توں اختیار کیاہے ، اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ گویا ہم بڑا تیر مار رہے ہیں اور کامیابی کی طرف گامزن ہیں ،

ایسے موقع پر کسی نے کیا خوب کہا تھا ،

بترسم کہ نہ رسی بکعبہ اے اعرابی ،

ایں راہ کہ تو میروی بترکستان است ،

ریاست پاکستان اور انکے رسمی اور غیر رسمی اکاؤنٹس نے بھی اشرف غنی کی ناکام سیاست کو اختیار کیا ہے ،

اُن پروپیگنڈوں میں سے ایک پروپیگنڈا وہ ہے جو تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود ابو منصور عاصم صاحب کی ایک کال کو بطورِ ثبوت پیش کرکے یہ تاثر دلانے کی کوشش کی جارہی ہے ، کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں موجود ہے ، اور وہاں سے اپنے ورکرز کو ھدایات دے رہے ہیں کہ جو تشکیلات اسوقت محاذوں پر موجود ہیں وہ استقامت دکھائے اور اپنے مراکز اور گھروں کی طرف واپس آنے کی زحمت نہ کریں ،

اتنی سی بات کو پاکستانی میڈیا اچھال اچھال کر پیش کرتے نہیں تھکتے ، کہ دیکھو ٹ ٹ پ کی قیادت افغانستان سے اپنے ورکرز کو ھدایات دے رہے ہیں کہ محاذوں سے واپس افغانستان نہیں آنا ۔

عقل کے پیدلوں اور دنیاکی نمبر ون انٹلیجنس رکھنے کے دعویداروں کو کوئی خبر نہیں ہے کہ ٹ ٹ پ کی قیادت کہاں ہے ؟

ارے عقل کے اندھوں ! ٹ ٹ پ کے ترجمان محمد خراسانی نے تو کئی بار اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اگر کسی کو ہماری قیادت سے ملنے اور اس بات کی تصدیق کی چاہت ہو کہ ٹ ٹ پ کی قیادت کہاں ہے تو ہم اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں محفوظ طریقہ سے غیر جانبدار صحافیوں کو بلا کر اپنی قیادت سے ملاقات کراکر انکی انٹرویو کرسکتے ہیں، مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود بھی ٹ ٹ پ کے اس مطالبے پر خاموشی نظر آرہی ہے ، جسکا واضح مطلب یہی ہے کہ اگر ریاستی قابض ٹولہ نے کسی کو اجازت دی ، اور ٹ ٹ پ کی قیادت سے ٹ ٹ پ کے زیر کنٹرول علاقوں میں ملاقات کرے ، تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ، اور ریاست پاکستان کی تمام تر پروپیگنڈوں کی حقیقت کھل کر سامنے آئے گی ۔ اس حقیقت کے سامنے آنے کے بعد امارت اسلامیہ افغانستان پر الزامات کا دھندا کیسے چلے گا اور امریکہ کی وفاداریاں کیونکر سمیٹے گا ؟

 

سیکیورٹی اداروں کے جنگی وسائل ، افرادی قوت اور آپریشنز کے مقابلے میں ٹ ٹ پ کا تناسب بہت کم ہے ،

مگر اس کے باوجود ٹ ٹ پ کا حوصلہ دن بدن مستحکم ، اور ریاست پاکستان بوکھلاہٹ کا شکار ہورہی ہے ،

ٹ ٹ پ کی حمایت قوموں کے اندر بڑھ رہی ہے ، اور فوج سے نفرتیں مزید جڑیں پکڑ رہی ہیں ۔

ٹ ٹ پ کا قوموں کے ساتھ نرم گوشے ، علماء کرام سے رہنمائی ، سیاسی لوگوں کیساتھ اخلاق سے پیش آنے کے باعث قوموں کیساتھ اعتماد کا رشتہ پختگی کی طرف بڑھ رہا ہے ، جبکہ فوج کی بدمعاشی ، ذخائر پر قبضہ ، جبری گمشدگی ، گھروں اور بازاروں پر اندھادھند بمباریوں، امریکہ اور مغربی قوتوں کی غلامی، بد اخلاقی اور بدسلوکی ،کیوجہ سے سیکیورٹی ادارے عوام کی نظروں میں نہایت حقیر وذلیل ہے ۔

ریاستی اداروں کو بے بنیاد پروپیگنڈوں کے بجائے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ،

اسوقت تحریک طالبان پاکستان ایک ناقابل تسخیر قوت بن چکی ہے ، ریاست کے بے بنیاد دعوے ٹ ٹ پ کی مزید استحکام کا ذریعہ بن رہے ہیں ، نیز امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف بے سرو پا بیان بازی صرف امریکی ایجنڈا ہے ، جو اہلیان پاکستان کو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔

Author

Exit mobile version