اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے اس بات کا ذکر کیا کہ داعشی خوارج نے حال ہی میں ’’وائس آف خراسان‘‘ میگزین کے انتالیسویں شمارے میں اسلامی امارت، امریکا اور اسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کا دعویٰ کیا ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق، اسلامی امارت اور اسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اگرچہ اسلامی اور شرعی دائرے میں کسی کافر کے ساتھ تعلق قائم کرنا شرعاً ممنوع نہیں ہے، جیساکہ مختلف اوقات میں اسلامی امارت کی قیادت نے اہم موضوعات پر امریکا کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
دوحہ کے کامیاب معاہدے سے پہلے اور بعد میں، یہ بات چیت اور رابطے خفیہ نہیں رکھے گئے، بلکہ کھلے عام اور علی الاعلان کیے گیے اور پوری دنیا اس سے آگاہ ہے، الحمدللہ یہ تمام تر کاوشیں شریعت کے دائرے میں کی گئی ہیں۔
اسی طرح، دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی وقتاً فوقتاً اسلامی امارت کے رہنماؤں اور اداروں کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں، افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں لاکھوں مسلمان آباد ہیں، اور ان کے خوشحال زندگی گزارنے اور معاشرتی امور کو سنبھالنےکے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے ساتھ تعلقات قائم ہوں، تاہم الحمدللہ، اسلامی امارت کی تمام پالیسیوں، چاہے وہ داخلی ہوں یا خارجی، ہمیشہ شریعت کے دائرے میں رہ کر عمل میں لائی جاتی ہیں۔”
کفارکے ساتھ تعلقات رکھنا مکمل طور پر ممنوع نہیں اور نہ ہی مطلق طور پر جائز اور درست ہیں، بلکہ اس میں تفصیل ہے؛ بعض حالات میں ایسے تعلقات کفر کی حد تک پہنچتے ہیں، بعض حالات میں یہ جائز اور درست ہیں، اور بعض میں کفر اورعدم کفر کے بارے میں اختلاف ہے، اہل السنہ والجماعت کے ائمہ کرام اور بزرگوں نے ان تمام اقسام کو واضح کیا ہے۔
کفار کے ساتھ عقیدتی مندانہ تعلقات رکھنا اور دلی محبت کرنایقیناً کفر ہے، اور شریعت کے دائرہ کار میں ان کے ساتھ معاہدات کے حوالے سے تعلقات قائم کرنا، یا انسانی بنیادوں پر ان کے ساتھ ہمسائیگی کا تعلق شریعت کی روشنی میں قائم رکھنا، یا ان کے ساتھ رشتہ داری اور قرابت کے تعلقات رکھنا شرعاً ممنوع نہیں ہیں۔
البتہ، دنیاوی اغراض اور مقاصد کے لئے کافروں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف تعاون اور مدد کرنے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، اور اس قسم کے تعلقات، مدد اور تعاون کے بارے میں ہم تفصیل سے ذکر کریں گے۔
کیونکہ آج کل داعشی خوارج مسلمانوں جھوٹ یا محض بے بنیاد افواہوں کی بنیاد پر کافر قراردیتے ہیں، کبھی کسی کے خلاف دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، اور پھر ان پر کفر اور ارتداد کے فتوے لگا دیتے ہیں؛ حالانکہ سلف میں کوئی بھی شخص مسلمانوں کے خلاف کافروں کے ساتھ تعاون کو مطلق طور پر کفر قرار دینے کا قائل نہیں تھا۔
البتہ اگر اس تعاون میں عقیدے کی خرابی شامل ہوتو پھر وہ کفر اور ارتداد بن جائے گا، لیکن اگر عقیدے کے لحاظ سے اس شخص کا عقیدہ صحیح ہو، صرف دنیاوی اغراض اور مقاصد کے لئے مسلمانوں کے خلاف کافروں کے ساتھ تعاون کرتا ہو، تو یہ بہت بڑا گناہ، جرم اور خیانت ہے، مگر تمام سلف یعنی صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور اہل السنت والجماعت کے متأخرین کے نزدیک یہ کفر اور ارتداد نہیں ہے۔
البتہ، بعض متأخرین کی مختصر عبارات میں تکفیر کے اقوال ملتے ہیں، لیکن سلف کے مجموعی موقف اور تمام متأخرین کی غالب اکثریت کے مقابلے میں ان کی ان مجمل اقوال کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یا یہ اقوال محض تشدید اور سختی پر محمول کیے جاتے ہیں۔
معاصر علما کے درمیان تکفیر کے اقوال ملتے ہیں، لیکن سلف کے اجتماعی موقف اور متأخرین کی اکثریت کے مقابلے میں، تکفیر جیسے حساس موضوع پر معاصر علما کے اقوال کو ترجیح دینا کسی صورت بھی درست اور معقول بات نہیں ہے۔
اس مضمون کے اگلے حصوں میں ہم اس موضوع کو تفصیل سے بیان کریں گے، اور اس قسم کے تعاون کو "مظاہرۃ علی المسلمین” بھی کہا جاتا ہے۔