انتہا پسند اور سخت گیر سیاست کے ناکام نتائج!

احمد ہشام الکردی

انتہا پسندی کا رویہ عام طور پر طویل مدتی ناکامی اور نقصان کا سبب بنتا ہے، انتہا پسندی نہ صرف سماجی اور سیاسی مسائل کو بڑھاتی ہے بلکہ لوگوں کے درمیان اعتماد، تعاون اور امن کے ماحول کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

۱۔ تحریکی جواز کا فقدان:

انتہا پسند تحریکیں عموماً اپنے مقاصد کے حصول کے لیے زور، تشدد اور ظلم کا سہارا لیتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ عوامی حمایت کھو دیتی ہیں، جب کوئی تحریک معاشرے کے عام لوگوں کی حمایت و تعاون کھو دیتی ہے، تو وہ پائیداری اور دوام کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے۔

۲۔ مخالفین کی تعداد میں اضافہ:

انتہا پسند اقدامات کی وجہ سے عام طور پرمخالفین کا ایک بڑا محاذ پیدا ہوتا ہے، یہ محاذ چاہے اندرونی ہو یا بیرونی، ہمیشہ انتہا پسندوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور زیادہ تعداد میں مخالفین کی موجودگی میں ریاست کا قیام ناممکن ہو جاتا ہے۔

۳۔ سیاسی اور اقتصادی ساخت کی کمزوری:

اکثر اوقات انتہا پسند تحریکیں اپنی حکومت قائم کرنے یا کسی پائیدار سیاسی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، ان کے اقتدار میں آنے سے اکثر سیاسی، اقتصادی اور سماجی بحران پیدا ہوتے ہیں، جو ان کے زوال کا سبب بنتے ہیں۔

۴۔ اعتدال پسند نظریات کی برتری:

انتہا پسند جماعتوں اور گروہوں کے مقابلے میں پوری تاریخ انسانی میں اعتدال پسند نظریات اور تحریکیں ہمیشہ بہتر ثابت ہوئی ہیں، کیونکہ یہ عوام کی ضروریات اور خواہشات سے زیادہ ہم آہنگ ہوتی ہیں، مثال کے طور پر:

خوارج:

ابتدائی اسلامی صدیوں میں خوارج ایک سخت گیر مذہبی تحریک تھی، اگرچہ انہوں نے ابتدا میں طاقت حاصل کی، لیکن ان کے انتہا پسند عقائد اور تشدد نے انہیں اسلامی دنیا میں الگ تھلگ اور تنہا کر دیا اور بالآخر وہ ختم ہو گئے۔

نازي تحریک:

دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جماعت کی سخت گیر سیاست مختصر مدت کی حکمرانی کے بعد شکست فاش سے دوچار ہوئی۔

کمیونسٹ تحریکیں:

سوویت یونین اور دیگر ممالک میں کمیونزم، جو ایک انتہا پسند نظریے کا حامل تھا، بالآخر اقتصادی اور سیاسی مسائل کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔

معاصر داعشی:

اگرچہ داعش نے اپنے ظہور کے ابتدائی دنوں میں تیزی سے کچھ علاقے قبضہ کرلئے اور عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی، مگر ان کی حکمت عملی اور اقدامات طویل المدتی کامیابی کے لئے پائیدار نہیں تھے، اس لئے بعد میں وہ انتہا پسندی اور سخت گیری کی وجہ سے عوام میں ناپسندیدہ اور قابل نفرت ٹھہرے۔

انہوں نے ابتدائی طور پر خود کو اسلام کا حامی باور کروایا، لیکن بعد میں اپنے جرائم، قتل و غارتگری، مسلمانوں کی عزتوں کی پامالی اور بے جا تخریب کاری کی وجہ سے ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا، اور وہ ایک طویل المدتی جماعت یا طاقت کے طور پر قائم نہیں رہ سکے۔

اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ انتہا پسند تحریکیں قلیل مدت کے لئے کچھ کامیابیاں حاصل کر سکتی ہیں، لیکن ان کی ناکامی کی اصل وجہ عوام کی ضروریات کو اہمیت نہ دینا اور تشدد کا استعمال ہے، تاریخ کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پائیدار تبدیلی کے لئے اعتدال پسندی، وسطیت اور معقول طریقے و راستے زیادہ مؤثر ہیں۔

Author

Exit mobile version