۲۰۱۴ء میں جب ابو بکر البغدادی کی ملیشیا نے ایک منظم منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ میں اپنے آپریشنز کو وسعت دینے کی کوشش شروع کی، تو ان کا پہلا کام عراق اور شام میں یہ تھا کہ وہ خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کریں اور وہاں غیر ملکی اور مقامی فوجیوں کے خلاف جنگ کریں۔
اس لئے کئی جہادی تحریکیں تحلیل ہو کر داعش میں شامل ہو گئیں، لیکن جب داعش نے دیگر جہادی تحریکوں کی مخالفت کی اورخطے میں صرف اور صرف اپنی عملداری چاہی، کسی کو بھی اپنی گھناؤنی کاروائیوں کے مقابلے میں آنے نہ دینا چاہا، تو اس کا مقصد تمام جہادی تحریکوں کو ختم کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔
داعشی فتنہ گروں نے وہاں موجود جہادی تحریکوں جیسے احرار الشام، جبهة النصرہ اور دیگر جہادی تحریکوں پر مختلف الزامات عائد کئے، انہیں کافر قرار دیا اور مرتد سمجھا۔ اسی لئے انہوں نے ان کے ساتھ خیانت کی اور انہیں منظر سے ہٹانے کی کوششیں تیز کر دیں۔
داعشی خوارج نے جہادی تحریکوں کے ساتھ خیانت کی اور انہیں کمزور کر کے وہ تمام مفتوحہ علاقے بہت کم وقت میں کھو دیے، جو مختلف جہادی گروپوں نے بڑی محنت سے حاصل کیے تھے اور جنہوں نے دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصانات پہنچائے تھے۔
ابو بکر بغدادی کی ملیشیا نے کفار کے خلاف لڑائی کے بجائے جہادی تحریکوں کو نشانہ بنایا اور ان کے خاتمے میں اپنی پوری طاقت استعمال کی، جب اس بارے میں داعشیوں اور آزاد مصنفین کی زبانی جہادی تحریکوں کے خلاف داعش کی مسلح کارروائیوں اور مذہبی جنگوں کی بات کی جاتی ہے، تو یہ بالکل ایسا لگتا ہے کہ داعش کو صرف اسی مقصد کے لیے متعین کیا گیا تھا۔
اس علاقے میں بھی ایسا ہی واقعہ ان جہادی تحریکوں کے ساتھ پیش آیا، جو انتہائی عقیدت کے ساتھ مسلح جدوجہد کر رہی تھیں، جن میں القاعدہ کے کچھ ارکان بھی داعش کے ساتھ شامل ہو گئے تھے، تاہم داعش نے ان سب کی امیدوں پر پانی پھیردیا، جہاد و مجاہدین سے خیانت کی اور ان کی صفوں کا توڑنا ہی اس کا مقصد اصلی بن کر رہ گیا۔