امارت اسلامی افغانستان کی خودمختار خارجہ پالیسی، ایک نئے باب کا آغاز

عبدان صافی

#image_title

افغان وزیر خارجہ کی بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مِسری سے حالیہ ملاقات پر پاکستانی اداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے شدید پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، یہ ردعمل اس پالیسی کا عکاس ہے جو افغانستان کے داخلی معاملات میں بے جا مداخلت پر مبنی رہی ہے اور جس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں بداعتمادی کو جنم دیا ہے۔

پاکستان کی روایتی افغان پالیسی، جس میں اسٹریٹجک معاملات اور اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرنے کی سوچ نمایاں رہی ہے، آج مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ دوسری طرف امارتِ اسلامی افغانستان ایک آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی اختیار کرچکی ہے، جس میں تمام علاقائی قوتوں کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان کے داخلی امور میں جس طرز کی مداخلت کی، اس نے افغانستان کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کے لیے بھی مسائل پیدا کیے، طالبان کے اقتدار ہاتھ میں لینے کے بعد اسلام آباد کو توقع تھی کہ کابل اس کے تابع رہے گا لیکن طالبان حکومت نے قومی خودمختاری کو مقدم رکھا۔

پاکستان نے متعدد مواقع پر افغانستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی، جس میں سرحدی پابندیاں، سفارتی بیانات اور حالیہ ہوائی حملے شامل ہیں، مگر اس کا نتیجہ برعکس نکلا؛ افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات میں اضافہ ہوا، جبکہ طالبان نے واضح کردیا کہ وہ کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر قومی مفاد کے مطابق فیصلے کریں گے۔

پاکستان کی یہ پالیسی اس حد تک غیر دانشمندانہ رہی ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی وجہ سے عالمی طور پر تنہا ہوچکا ہے، حالیہ فضائی حملے اس کی سب سے بہتر مثال ہیں، جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان مزید دوری کا باعث بھی بنے ہیں، اگر اسلام آباد نے اپنی پالیسی پر نظرثانی نہ کی تو مستقبل میں اسے مزید سفارتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امارتِ اسلامی افغانستان کی خارجہ پالیسی ایک آزاد اور متوازن سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، طالبان نے واضح کردیا ہے کہ وہ کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کریں گے بلکہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کریں گے۔

بھارتی سیکرٹری خارجہ کے ساتھ افغان وزیر خارجہ کی ملاقات اسی پالیسی کا تسلسل ہے، طالبان نے ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ افغانستان کو اقتصادی، تجارتی اور سفارتی میدان میں تمام ممالک کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ ہندوستان خطے میں ایک اہم قوت ہے اور افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔

طالبان حکومت اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تعلقات صرف ایک ملک تک محدود رکھنا دانشمندی نہیں بلکہ تمام طاقتوں کے ساتھ بہتر سفارتی تعلقات قائم کرنا ہی طویل مدتی استحکام کا ضامن ہے۔

یہی رویہ طالبان نے وسطی ایشیائی ریاستوں، ایران، چین اور روس کے ساتھ بھی اپنایا ہے، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جا رہا ہے، جبکہ ایران اور چین کے ساتھ بھی اقتصادی تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے، ان ممالک کے ساتھ تعلقات کا بڑھنا اس امر کا ثبوت ہے کہ افغانستان عالمی تنہائی سے نکل کر ایک خودمختار ریاست کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ سے افغانستان کو اپنے تابع ریاست کے طور پر دیکھنے کی کوشش کی، لیکن طالبان حکومت نے واضح کردیا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گی، حالیہ فضائی حملوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان عدم اعتماد کو مزید بڑھا دیا ہے اور اگر یہی رویہ اسی طرح برقرار رہا تو مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات صرف برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر ہی ممکن ہیں۔

اگر اسلام آباد اپنی پرانی پالیسی پر اصرار کرتا رہا تو وہ نہ صرف افغانستان بلکہ دیگر علاقائی قوتوں سے بھی خود کو مزید الگ تھلگ کرلے گا، طالبان کی پالیسی واضح ہے کہ وہ ہر ملک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں اور اگر پاکستان بھی اسی اصول کو اپنائے تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔

Author

Exit mobile version