گذشتہ چند سالوں سے امت مسلمہ کے لیے ایک بڑی خطرہ نوجوان نسل کی گمراہی اور فکری انحراف ہے، جو اسلامی خلافت یا داعش کے نام سے جاری ہے، حقیقت میں امت مسلمہ کی مشکلات اور بحرانوں میں اضافے کی وجہ سے انٹیلیجنس اداروں نے مذموم سیاست کے ذریعے یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے اقدار و شعائر کے خلاف اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا۔
اپنے تربیت یافتہ افراد کے ذریعے مسلم امت کے نوجوانوں کو اسلامی خلافت (داعش) کے نام پر دھوکہ دیاجارہاہے، یہ افراد اپنی انتہاپسندانہ نظریات کی بنیاد پر انسانیت اور اسلام کے حقوق کو پامال کرتے ہیں، مقدس مذہبی مقامات پر حملے کرتے ہیں اور امت مسلمہ کے بہادر مجاہد افراد کی شہادت کو اپنا مقصد سمجھتے ہیں۔
داعش خود کو اسلام کا نمائندہ سمجھتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کے اقدامات اسلام کے رواداری اور انصاف کے اصولوں کے خلاف ہیں، کیونکہ اسلام انسانی حقوق اور ان کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
ولقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ
(یقیناً ہم نے بنی آدم کو عزت دی ہے)۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اسلامی نظام قائم کیا، تو یہ نظام انہوں نے انسانی کرامت کے تحفظ کی بنیاد پر ہی قائم کیا، یہ انسانی کرامت بغیر کسی مذہب یا عقیدے کی تفریق کے ہر انسان کا حق ہے۔
حتیٰ کہ اسلام نے جنگ کے میدان میں بھی ایسے قوانین مقرر کیے ہیں جو انسانی کرامت کا تحفظ یقینی بناتے ہیں، لیکن اس کے برعکس، داعش بے گناہ انسانوں کو قتل کرتی ہے، قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور اپنے افراد کو اسلامی نظام کے خلاف جنگ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
جیسا کہ مصائب وآلام کے واقعات طویل عرصے سے ہمارے ملک میں وقوع پذیر ہورہے تھے اور یہ خطہ ہمیشہ استعماری طاقتوں کے حملوں کا شکار رہا، اس وقت جب ہمارا پیارا ملک امریکہ اور نیٹو کی استعماری طاقتوں کے ذلت آمیز قدموں تلے تھا اور اس کا مستقبل نامعلوم مسائل تھا، اس دوران عالمی انٹیلیجنس اداروں نے اسلامی خلافت (داعش) کے نام پر بنائی گئی جماعت کو افغانستان میں فعال کردیا تاکہ اس طریقے سے ان افغانوں کو جو ظاہراً غریب نظر آتے ہیں، اپنے مذموم مقاصد کا شکار کرسکیں۔
لیکن اللہ کے فضل اور بہادر افغان عوام کی قربانیوں کے باعث، ان کے تمام مزعومہ مقاصد یکے بعد دیگرے ناکام ہوئے، وہ افغانستان میں اپنے مذموم عزائم کو مکمل نہیں کر سکے۔
اب امت مسلمہ کے نوجوان دینی احکامات کے فلسفے پر غور کرتے ہوئے اور اسلامی نظام کے وسیع پہلوؤں کی تحقیق کرتے ہوئے اس حقیقت تک پہنچ چکے ہیں کہ داعشی اس زمانے کے خوارج ہیں اور عالمی انٹیلیجنس اداروں کے نمائندے ہیں؛ داعش وہ گروہ ہے جو اسلامی نظام کے ساتھ شدید مخالفت رکھتا ہے، وہ اپنے تکفیری اور انتہاپسندانہ نظریات کے ذریعے مختلف ظالمانہ طریقوں سے اسلام کی پاکیزہ شکل کو دنیا میں بدنام کرنا چاہتے ہیں۔
اب جب کہ ہمارے اسلامی ملک میں شہداء کے خواب شرمندہ تعبیر ہوئے کہ امن وامان کی فضا میسر ہوئی اور شریعت اسلامی کا نفاذ ہوا ہے، تو ضروری ہے کہ علماء، دانشور اور معاشرے کی بااثر شخصیات مغربی ممالک کے مذموم مقاصد کے خاتمے کے لیے محنت اور کوشش کریں تاکہ نوجوانوں میں عمومی آگاہی اور دین و ملک کی خدمت میں فعال کردار ادا کیا جا سکے۔
ان حضرات کو چاہیے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھیں اورامت مسلمہ کے نوجوانوں کو استعماری گروپوں کا شکار بننے سے روکیں، ان کی اسلامی اور شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ملکی منافقانہ پالیسیوں کو عملی طور پر ناکام بنائیں، اسی طرح عالم اسلام کی سطح پر داعش کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہیے جو صرف فوجی کارروائیوں پر منحصر نہ ہو بلکہ داعش کے خلاف منظم فکری جدوجہد کی جانی چاہیے۔