موجودہ صورتحال میں انتہاپسند گروہ جیسے داعش اسلامی ممالک خاص طور پر امارت اسلامیہ افغانستان کے لیے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں، یہ گروہ اسلام کی ایک خاص من گھڑت تعبیر کی بنیاد پر اپنی مرضی کی خلافت قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور تشدد و دہشت گردی کے ذریعے مختلف علاقوں میں اپنا وجود ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
افغانستان جو گزشتہ برسوں میں بحرانوں کا مرکز رہا ہے، یہاں داعش کی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری تھیں، تاہم اس وقت حالات کا تجزیہ اور امارتِ اسلامیہ کے اعلیٰ حکام کے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ داعش نہ صرف افغانستان کی عوام میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ یہ زوال کی جانب گامزن ہے۔
انس حقانی نے چند دن پہلے العربیہ نیٹ ورک کے ساتھ گفتگو میں کہا: داعش امارت اسلامی میں کسی قسم کا اثر و رسوخ نہیں رکھتی اور اس کے نظریات سے امارت کے افراد و ارکان کسی بھی طرح متاثر نہیں ہیں۔
ان کی باتیں نہ صرف داعش کے خلاف امارت اسلامیہ کی کامیابی کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ امارت اسلامیہ کی قیادت کی دانشمندی اور عزم کا بھی ثبوت ہیں۔
امارت کے رہنما سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں داعش کا وجود صرف بدامنی اور عدم استحکام کا سبب ہے اور یہ ملک و قوم کے لیے کسی بھی طرح سے دینی یا قومی مفاد میں نہیں۔
اس کے علاوہ یہ بیان اس بات کا مظہر ہے کہ طالبان نے بحیثیت افغان حکمرانوں کے داعش جیسے انتہاپسند نظریات سے خود کو بچا کر، ملک میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور امن قائم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس بنا پر داعش طالبان حکومت کے خلاف ایک اجنبی اور مخالف گروہ کے طور پر ظاہر ہوئی ہے جو افغانستان کے حکومتی ڈھانچے میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتی، افغانستان میں داعش کے لیے دیگر ممالک کے مقابلے میں عوام میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے سنگین رکاوٹیں موجود ہیں۔
رکاوٹوں کی وجوہات:
اول: افغانستان اور اس کے عوام اپنی مضبوط مذہبی اور ثقافتی تاریخ کی وجہ سے خاص سماجی اور سیاسی تبدیلیوں میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں جو آسانی سے تکفیری اور تشدد پر مبنی نظریات کے اثر میں نہیں آسکتے، افغان عوام عمومی طور پر انتہاپسند گروپوں پر یقین نہیں رکھتے اور اس حوالے سے انہوں نے اپنے ماضی کے تجربات سے کافی سبق سیکھے ہیں جن کے ذریعے انہوں نے بیرونی اور دہشت گرد طاقتوں کے خلاف فائدہ اٹھایا ہے۔
دوم: اگرچہ داعش نے کچھ علاقوں میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی ہے لیکن اس گروہ کی معاشرتی حیثیت اور عوامی حمایت کی کمی کی وجہ سے وہ ملک میں مستقل طور پر جڑ نہیں پکڑ سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ داعش کی زیادہ تر سرگرمیاں افغانستان میں خودکش حملوں اور محدود فتنہ انگیزیوں کی صورت میں ہوئی ہیں جو یا تو ناکام کردی گئیں یا سرے سے منصوبے کی ابتداء میں ہی انہیں ختم کردیاگیا۔
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ داعش نہ صرف داخلی حمایت کی کمی کا سامنا کر رہی ہے بلکہ امارت اسلامی کی قیادت کے خلاف کوئی بڑا خطرہ پیدا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔
داعشی زوال کا ایک اہم سبب:
ایک اہم عامل جو داعش کے زوال کے عمل کو تیز کر رہا ہے، وہ وہ اقدامات ہیں جو امارت اسلامیہ نے اس گروہ کے خلاف اٹھائے ہیں۔
امارتِ اسلامیہ نے مسلسل داعش کے خلاف مختلف علاقوں میں ملٹری و سیکیورٹی آپریشنز کیے ہیں، جن کی وجہ سے داعش کی قوت ختم ہوئی ہے اور اس کے فعال نیٹ ورکس کا خاتمہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امارت اسلامیہ نے ملک میں اپنی حکمرانی کے بہترین انتظام کے ذریعے داعش کی سرگرمیوں کو محدود کیا ہے اور بیشتر مواقع پر وقت سے پہلے ہی ان کا قلع قمع کیاگیاہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت داعش نہ صرف افغانستان کے حکومتی ڈھانچے میں اثرورسوخ نہیں رکھتی بلکہ اس گروہ کے ظاہری خطرات بھی کم ہوئے ہیں کہ اب اس گروہ کا مستقبل افغانستان میں بہت تاریک نظر آرہا ہے۔
آخر میں کہا جاسکتا ہے کہ داعش افغانستان میں گہری جڑیں نہیں رکھتی اور صرف ایک عارضی خطرہ ہے جو عوام کی حمایت کی کمی اور طالبان کی سیکیورٹی اقدامات کے نتیجے میں زوال پذیر ہے، اگرچہ اس گروہ نے بعض اوقات دہشت گرد حملے کیے ہیں لیکن چونکہ ان کے پاس کوئی سماجی جواز اور عوامی حمایت نہیں ہے، اس لیے افغانستان میں یہ طویل مدت تک قائم نہیں رہ سکتے۔
امارت اسلامیہ نے اپنی دانشمندی اور حفاظتی تدابیر کے ذریعے نہ صرف داعش کا مقابلہ کیا ہے بلکہ ملک میں استحکام کے قیام کے لیے بھی مصروف ہے، ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں داعش افغانستان کے سیاسی اور سیکیورٹی منظرنامے سے مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔