معاصر حملہ آور کفار جدید ٹیکنالوجی، مادی وسائل اور سرد یا فکری جنگ کے تمام وسائل کے ساتھ اپنی طاقت کے ذریعے اسلامی ممالک کو ایک بڑے اژدہے کی طرح اپنی گرفت میں لے چکا ہے اور ان کے کچھ منصوبے تو ایسے ہیں جو نصف صدی بلکہ پوری ایک صدی تک کا وقت لیتے ہیں، تاکہ اسلامی ممالک اور مسلمان قوم سے وہ معنوی اقدار لوٹ لیں جن کے ذریعے یہ قوم پوری تاریخ اسلامی میں سر بلند رہی، وہ اصول و ضوابط جو انسانوں کو غلامی اور ظالمانہ خودساختہ قوانین سے نجات دلانے والی تھیں۔
بدقسمتي سے اپنے ان مذموم منصوبوں کو انہوں نے کلیسا اور عالمی یہودی کمپنیوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ ایسے جھوٹے مسلم رہنماؤں کا استعمال کرتے ہوئے عملی جامہ پہنایا، جنہوں نے برسوں تک اپنے پروپیگنڈا وسائل اور آلات کے ذریعے ان کا پرچار کیا تھا اور ایسی شخصیات تخلیق کی تھیں جو ظاہری طور پر اپنے ملکوں کے عوام میں مقبولیت کی حامل تھیں، لیکن پردے کے پیچھے ان کے تمام تر تعلقات انہی کے ساتھ تھے اور اگر منصوبہ ناکام ہوتا یا یہ رہنما اپنی پوزیشن سے ہٹتے تو انہیں فوجی بغاوتوں اور احتجاجات کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا جاتا تھا۔
شاید اس کی بہترین مثال مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو اقتدار سے علیحدہ کرنا اورپھر شہید کرنا تھا، جسے مصری فوج اور مغربی حمایت یافتہ مصری فوج کے سربراہ عبدالفتاح سیسی کے ہاتھوں عملی جامہ پہنایا گیا۔
اس کے علاوہ وہ رہنما جو امریکی یونیورسٹیوں کے قوانین، اداروں اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبوں سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے اور فکری طور پر ان کے ہرکارے بن چکے تھے، انہیں اپنے خفیہ منصوبوں کے لیے سامنے لایا گیا۔
ان مذموم منصوبوں کا ایک اور پہلو تکفیری اور بیرونی گروہ تھے جنہیں مغربی خفیہ اداروں کی حمایت حاصل تھی اور جنہوں نے خالص اسلامی تحریکوں اور نظاموں کے خلاف بغاوت اور سرکشی کی تھی؛ ان میں سب سے جدید اور بدنام گروہ عراق اور شام میں داعش تھا، جنہیں وہاں حکومت قائم کرنے کا موقع دیاگیا۔
داعش نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کی حمایت سے اسلامی اقدار، مساجد، شعائر اسلام اور حقانی علماء کو نشانہ بناکر راستے سے ہٹایا، جس کا مقصد ان کے اپنے مالی کاروبار، جنسی تجارت، تاریخی آثار کی لوٹ مار اور دیگر بدفعلیاں شامل تھیں، جن کے تمام ثبوت آج بھی یوٹیوب اور خوارج کے نشریاتی نیٹ ورکس میں موجود ہیں، خوارج کے ذریعے حملہ آوروں کے کچھ دیگر منصوبے اور ذرائع بھی تھے، جو مندرجہ ذیل تھے:
۱۔ خلافت اور خلیفہ
یہ ہمارے موضوع کا اہم ترین نقطہ ہے جس سے داعشی خوارج نے بہت برا فائدہ اٹھایا اور ابھی بھی اٹھا رہے ہیں، خلیفہ اور خلافت بہت ہی مقدس الفاظ ہیں، ہر انسان زمین پر خدا تعالی کا خلیفہ اور نمائندہ ہے، حقیقی خلافت میں اسلامی ممالک کے درمیان سرحدیں اور حملے ختم ہو جاتے ہیں اور صرف اسلام ہی سرحد کی حیثیت اختیار کرتا ہے۔
لیکن مسلمانوں کو اپنے اس مقدس مقصد سے روکنے کے لیے مغربی استعمار نے سب سے پہلے عراق اور شام میں داعش یا اسلامی دولت کے نام سے ایک دہشت گرد گروہ قائم کیا اور پھر افغانستان میں بھی امارت اسلامی کو توڑنے، ان میں تفرقہ ڈالنے کے لیے عراقی داعش کی دیکھا دیکھی خوارج کو میدان میں اتارا، جنہوں نے اس مقدس نام سے ناجائز فائدہ اٹھاکر معصوم عوام کو وحشت اور بربریت سے دوچار کیا، ان خوارج نے اس کے باوجود کوئی ایسی کامیابی بھی حاصل نہیں کی جسے وہ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔
داعشی خوارج خلافت کا نعرہ لگاکر پسِ پردہ استعمار کے مقاصد کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں، مسلمانوں کے درمیان ان نعروں کا راگ الاپ کر تفرقہ اور اختلافات پیدا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں خلافت اور ایک خلیفہ کے تصور کو اس حد تک مسخ کردیں کہ وہ اس کی خواہش سے دستبردار ہوجائیں اور یہی استعماری طاقتوں کا اصل مقصد ہے۔
خراسانی خوارج کی صفوں میں وہ تمام منحوس اور ناپسندیدہ افراد شامل ہیں جو اپنی قوموں اور معاشروں میں اپنے لیے کوئی جگہ نہیں پائی اور بالآخر مجبور ہوکر استعمار کی گود میں جا کر پناہ لی، تاکہ اقتدار اور وسائل حاصل کریں اور اسلام کے نام پر اپنی تجارت کریں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ان شاء اللہ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
وہ تمام نوجوان جو خوارج کی صفوں میں شامل ہوئے ہیں، انہیں اپنے جھوٹے اور نقاب پوش رہنماؤں کی جانب سے سبزباغ دکھائے گئے، جس کے بعد انہوں نے عوام کی دولت لوٹی، عوام کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا، انہوں نے غنیمت کے نام پر یا ڈالرز میں دی جانے والی تنخواہ کے حصول کے لیے خلافت کے نام پر ایسی وحشتناک جرائم کا ارتکاب کیاہے جس کے تذکرے سے انسانیت شرما جاتی ہے۔