۲۔ اچھے اور برے مسلمان:
مغربی اور کفری انٹیلیجنس حلقوں نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں کو "اچھے اور برے” گروپوں میں تقسیم کیا اور بعض ممالک کو اپنے دوست ممالک کے طور پر منتخب کیا جبکہ کچھ کو پابندیوں اور تنقید کا شکار بنایا۔
وہ مسلمان جو مغربی اور امریکی اقدار وروایات کو اچھا سمجھتے تھے، جو اپنے کلین شیو چہرے، ٹائی اور خیالات تک ان کے حامی تھے، جو صرف نام کی حد تک مسلمان تھے، اس قسم کے لوگ مغربی کفار کے ہاں اچھے مسلمان ٹھہرے، جبکہ ظاہرا و باطنا مسلمان لوگ، باحجاب خواتین اور اسلامی شعائر پر عامل مسلمان برے مسلمان کہلائے جانے لگے، جن کو سزا بھی یہ دی جارہی ہے کہ وہ مغربی ممالک کی شہریت حاصل کرنے سے محروم کردیے گئے ہیں۔
۳۔ خوارج کی مالی مدد اور فتنے پیدا کرنا:
خوارج کی تشکیل اور دیگر فتنوں کا وجود میں آنا سرد جنگ اور فکری جنگ کے خطرناک ترین ذرائع میں سے شمار کیے جاتے ہیں، جن کے ذریعے مسلمانوں کو اسلام کی اصل روح اور راستے سے زبردستی یا رضاکارانہ طور پر منحرف کیا جاتا ہے اور بیش بہا انعامات اور سازشوں کے ذریعے انہیں اپنے جال میں پھنسا لیا جاتا ہے، پھر آہستہ آہستہ اسلام سے متعلق ان کے اندر تحقیر، جہاد اور آزادی کے جذبے کو مٹا دیا جاتا ہے اور بالآخر جہاد کو خود کشی کے طور پر باور کروایاجاتاہے۔
عراق، شام اور پھر "خراسان اسلامی ریاست” کے نام سے خوارج کو وجود میں لانا، اس فتنے کی بڑی مثالیں ہیں، جنہوں نے افغانستان میں بھی اپنے تمام طاقت اور حمایت سے اسلام کی توہین کے لیے کام کیا، لیکن امارت اسلامی کے مجاہدین نے ان کا نام اور نشان اس طرح مٹا دیا کہ خود عالمی سطح پر اس کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
۴۔ شیعہ اور سنی:
شیعہ اور سنی کے نام پر مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنا اور ان کے درمیان مسلح جنگوں کو بڑھاوا دینا، جس کی منصوبہ بندی اور فنڈنگ علاقے اور ہمسایہ ممالک کی طرف سے کی جاتی تھی، سرد جنگ کا ایک اور منصوبہ تھا جو داعشی خوارج کے ذریعے عملی شکل اختیار کررہا ہے۔
جمهوری حکومت کے حامی داعشی خوارج نے کابل اور دیگر صوبوں میں تکیہ خانوں اور عبادت گاہوں پر شدید حملے کیے، عبادت کرنے والوں، خواتین اور بچوں کو قتل کیا، لیکن امارت اسلامی کے برسرِ اقتدار آتے ہی یہ سب کچھ ختم ہوگیا۔
۵۔ انتہاپسند اور معتدل مسلمان:
انتہاپسند یا اصطلاحاً سخت گیر اور میانہ رو یا معتدل مسلمان پیدا کرنا خارجی فتنہ اور استعمار کا ایک اور بڑا ذریعہ تھا، جس کے ذریعے اندرونی طور پر معاشرتی اداروں، جماعتوں اور گروپوں کی تخلیق کی گئی، تاکہ اصل حقیقی مسلمانوں کو جو اپنے دین اور اقدار کے دفاع میں جدوجہد کر رہے ہیں، انتہاپسند سمجھا جائے، جبکہ وہ مسلمان جو صرف دعا اور نماز تک محدود رہتے ہیں اور سیاست یا اسلامی معاشرے کی تعمیر، ترقی اور تحفظ میں حصہ نہیں ڈالتے، انہیں معتدل مسلمان سمجھا جائے، یہ فتنہ مغربی اور مشرقی مسلمانوں کے درمیان ایک بڑے تصادم کا ذریعہ بن چکا ہے۔
۶۔ عدم تشدد پر مبنی اسلام:
اگرچہ حملہ آور اور سردجنگ کرنے والے خوارج کو ہر قسم کی فوجی اور وسائل کرتے ہیں اور انہیں کرائے کے قاتلوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ عدم تشدد کے فلسفے کی تبلیغ کرتے ہیں اور برحق جہاد کو تشدد اور ظلم سے تعبیر کرتے ہیں، جو انہیں قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسلامی ممالک کی خودمختاری اور حقیقی اسلامی نظام کے نفاذ کا سب سے بہترین طریقہ جہاد اور مسلح جدوجہد ہے، تاکہ جارحیت کرنے والوں کو شکست دی جا سکے۔
۷۔ متمدن اور جدید اسلام:
یورپ میں سولہویں صدی میں رینسانس کے آغاز میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ دین اور سیاست کو علیحدہ ہونا چاہیے، عیسائیت اور سیاست کو الگ ہونا چاہیے، کیونکہ یہ منسوخ دین اتنا مسخ اور بدل چکا تھا کہ اس کی اصل روح تقریباً فراموش کی جاچکی تھی۔
مغرب نے جب ترقی کی تو بدقسمتی سے چند مسلم رہنماؤں نے بھی اسلام اور سیاست کو علیحدہ کرنے کے نظریے کو پیش کیا، جو کلی طور پر غلط تھا، کیونکہ اسلام ہمیشہ ایک معقول اور روحانی اقدار پر مبنی سیاست کا حامل رہا ہے۔
انہوں نے ان مسلمانوں کو متمدن اور معتدل کہا جو جمہوری نظاموں اور مغربی ٹیکنالوجی کے زیر اثر اپنی حکومتیں نام نہاد انتخابات کے ذریعے قائم کرتے تھے جبکہ حقیقی مسلمان جو اس غیر معقول جمہوری نظام کے خلاف تھے، انہیں انتہاپسند اور پسماندہ مسلمان کا لقب دے کر ان کے خلاف ہر قسم کے محاذ کھول دیے گیے۔