اگرچہ عالمی سطح پر خواتین کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اپنی تنظیم میں شامل کرنے کا عمل ایسی تنظیموں میں بہت کم نظر آتا ہے جو مختلف ممالک کے مقاصد کے لیے جنگوں میں ملوث ہیں، لیکن داعش کی زیادہ تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ اپنی صفوں میں خواتین اور بچوں کو شامل کرے۔
یہ عمل داعش کے انتہاپسند نظریات اور غلط عقائد کی تقویت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جس کی ہم ذیل میں وضاحت کریں گے۔
۱۔ خواتین کا کردار جنگ اور حمایت کے میدان میں:
داعش کے لیے خواتین کو اپنی صفوں میں شامل کرنا دوہری اہمیت رکھتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ خواتین کو گھریلو کاموں، علاج معالجہ اور اسی طرح دیگر کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے جنگجوؤں کی ضروریات پوری کرنے میں بھرپور مدد ملتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ داعش خواتین کو جنگ میں شامل ہونے کی ترغیب دیتی ہے اور بعض حالات میں انہیں خودکش حملوں کے لیے تربیت دیتی ہے۔ خواتین کا یہ کردار ان گروپوں میں نسبتاً نیا ہے اور اس کی بدولت جنگ میں ان کی موجودگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
۲۔ نسل پروری کے لیے منصوبہ بندی کی کوشش:
داعش کی کوشش ہے کہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے جنگجوؤں سے شادی کرنے کے لیے راغب ہوں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی نسل پیدا کی جائے جسے داعش کے عقائد و نظریات لے کر پلے بڑھے، تاکہ وہ آسانی سے ان کے نظریات کو اپنائیں اور داعش کے لیے ایک طویل المدتی قوت بن سکے۔ یہ داعش کے لیے ایک قسم کی "نظریاتی نسل پروری” بھی ہے۔
۳۔ عالمی پروپیگنڈے کے لئے کوششیں:
داعش سوشل میڈیا اور دیگر پروپیگنڈہ ذرائع کے ذریعے خواتین اور نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتی ہے، وہ اس طریقے سے عالمی سطح پر اپنی تشہیر اور اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا وہ ایک طاقتور ریاست ہیں جہاں خواتین، مرد اور بچے سب مل کر ایک ساتھ رہتے ہیں۔
۴۔ نظم و ضبط اور کنٹرول کے لئے گھریلو زندگی کا قیام:
داعش ان علاقوں میں جہاں اس کی حکومت ہے، خود کو ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے، اس مقصد کے لئے وہ مختلف خاندانوں کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور علاقے میں معمول کی زندگی کا منظر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خاندانوں کا قیام اوران کی منظر کشی ایک ایسا حربہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ صرف ایک جنگجو گروہ نہیں بلکہ ایک ریاست ہیں جہاں گھریلو زندگی بھی جاری ہے۔ خواتین گھریلو ڈھانچے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور خواتین کو ان طریقوں سے اپنی طرف متوجہ کرنا اہم اہداف میں شامل ہے۔
۵۔ خودکش حملوں کے لئے خواتین کا استعمال:
داعش خواتین کو خودکش حملوں کے لئے بھی استعمال کرتی ہے، کیونکہ بہت سے معاشروں میں خواتین سیکیورٹی فورسز کی نظر میں مشکوک نہیں اور یہ گروہ اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ خواتین کے ذریعے خودکش حملے ان کے لیے جنگ کا ایک نیا حربہ ہے، کیونکہ خواتین آسانی سے ایسے علاقوں میں داخل ہو سکتی ہیں جہاں مرد جنگجو نہیں جا پاتے۔
۶۔ خواتین اور نوجوانوں کے لئے ’’شہادت‘‘ اور ’’ہیروازم‘‘ جیسے نظریات کا استعمال:
داعش خواتین اور نوجوانوں کو ایسی تقاریر اور نعرے پیش کرتی ہے جن میں ’’شہادت‘‘ اور ’’ہیروازم‘‘ کے تصورات پر زور دیا جاتا ہے، وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے کارندوں کی نظریاتی تربیت ایسی کریں کہ ان کے لئے سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی "جنگ” میں خون بہائیں اور اسلام کے دفاع کے لئے اپنی جان قربان کریں۔ اس قسم کے خیالات خاص طور پر ان لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جو مذہبی عقائد سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور قربانی و ایثار کا جذبہ رکھتے ہیں۔
۷۔ معاشی عدم مساوات اور سماجی مسائل کا فائدہ اٹھانا:
داعش ایسی خواتین اور نوجوانوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جو غربت، بیروزگاری یا دیگر معاشی اور سماجی مسائل کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں، وہ کوشش کرتی ہے کہ ان مسائل کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرے اور لوگوں کو یہ تاثر دے کہ داعش کی "اسلامی ریاست” کے زیر سایہ انہیں انصاف، بہتر زندگی اور کافی وسائل فراہم کیے جائیں گے۔
اس طرح ان کی کوشش ہے کہ معاشی پسماندگی اور سماجی مسائل کو اپنے سیاسی اور جنگی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
مختصراً یہ کہ داعش خواتین اور بچوں کو اپنے جنگی، پروپیگنڈہ اور آئیڈیالوجیکل مقاصد کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتی ہے، ان کی کوشش ہے کہ اپنے پُر تشدد نظریات کی اگلی نسل کو تربیت دے اور اپنے انتہاپسندانہ مقاصد کے تسلسل کے لیے ایک طویل المدتی بنیاد قائم کرے لیکن الحمدللہ فی الحال اس مقصد میں بھی انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔