جہادی تحریکوں کے مقابلے میں داعش کا انتہا پسندانہ مؤقف | دوسری اور آخری قسط

عبود بلخی

٤۔ حماس کے خلاف داعش کا مؤقف:

داعش کے نزدیک حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اس کا حکومتی نظام اسلام کے دین کے مطابق نہیں ہے، داعش نے حماس کی جہادی تحریک کے ساتھ اپنا اختلاف تقریباً ٢٠١٥ء سے شروع کیا، جب داعشیوں نے غزہ میں حماس کے چند حامیوں کے سر قلم کیے اور کہا کہ وہ "اصل اسلام” سے منحرف ہو چکے ہیں۔

داعش اپنے پروپیگنڈا مہم میں حماس پر تنقید کرتی ہے اور انہیں "کفار کے دوست” قرار دیتی ہے۔ داعش کے مطابق، حماس عالمی طور پر ایک آزاد اسلامی خلافت کے قیام کے لیے مخلص نہیں ہے اور فلسطین کے مسئلے کا حل ان کے مقاصد سے متصادم ہے، حالانکہ حماس ابھی بھی بیت المقدس اور فلسطینی سرزمین کی آزادی کے لیے عملی طور پر یہودیوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔

٥۔ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف داعش کا مؤقف:

داعش اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے مابین تعلقات بھی دشمنی پر مبنی ہیں، داعش تحریک طالبان پاکستان کو ایک ایسی تنظیم کی نظر سے دیکھتی ہے جو عالمِ اسلام میں اپنے کنٹرول اور اثر و رسوخ کے لیے ان کی ایک حریف ہے اور وہ اپنے نظریات اور نظام کو اس خطے میں پھیلانے کی کوشش کرتی ہے۔

داعش اپنے آپ کو عالمی خلافت کے طور پر پیش کرتی ہے اور عالمی اسلامی حکومت کے قیام کا دعویٰ کرتی ہے، جبکہ تحریک طالبان پاکستان خاص طور پر پاکستان میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے لڑ رہی ہے اور اپنے قومی مقاصد کے لیے سرگرم ہے۔ یہ فرق دونوں تنظیموں کے درمیان بنیادی نظریاتی تضاد پیدا کرتا ہے، کیونکہ داعش صرف اپنے نظریے کو درست سمجھتی ہے اور دوسری تنظیموں کو باطل اور منحرف قرار دیتی ہے۔

٦۔ الشباب کے خلاف داعش کا مؤقف:

داعش اور الشباب کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف مسابقتی موقف پایا جاتا ہے۔ الشباب صومالیہ اور مشرقی افریقہ میں ایک فعال جہادی جماعت ہے جو القاعدہ سے منسلک ہے جبکہ داعش خود کو ایک عالمی خلافت کے قیام کے خواہاں کے طور پر پیش کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ تمام اسلامی گروہ اس کے تحت اور اس کی اطاعت میں آجائیں۔

الشباب نے القاعدہ کے ساتھ بیعت کی ہے اور ان کے نظریات و رہنمائی پرعمل پیرا ہے، جبکہ داعش کا القاعدہ کے ساتھ پرانی اور گہری دشمنی ہے کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ الشباب اس کی خلافت کا حصہ بنے۔

اس کے علاوہ، داعش افریقہ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ الشباب پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ اس کی بیعت کو قبول کرے۔ تاہم الشباب اپنی خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور داعش کے اثر و رسوخ اور مزعومہ خلافت کے پھیلاؤ کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے۔

٧۔ انصار الاسلام کے خلاف داعش کا مؤقف:

داعش اور انصار الاسلام ایک دوسرے کے حریف سمجھے جاتے ہیں اور یہ مقابلہ خاص طور پر اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب داعش نے ٢٠١٤ء میں عراق اور شام میں خلافت کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے داعش نے کوشش کی کہ تمام جہادی گروہ اپنے جعلی خلافت کے زیرِ اثر لے آئے لیکن انصار الاسلام نے ان کی بیعت اور کنٹرول کو مسترد کرکے اپنی خودمختاری برقرار رکھی ہوئی ہے۔

داعش چاہتی تھی کہ تمام جہادی گروہ اس کی جعلی خلافت کا حصہ بن جائیں جبکہ انصار الاسلام اپنے آزادانہ کام اور مقامی مقاصد پر توجہ کیے ہوئے ہے اور داعش کے دعوائے خلافت کو سرے سے جائز نہیں سمجھتی۔ انصار الاسلام خود کو ایک آزاد اسلامی گروہ قرار دیتی ہے اور داعش کی خلافت کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتی۔

اس کے علاوہ داعش ایک سخت انتہاپسندانہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے اور اپنے مزعوم جہاد کے لیے اکثر بے رحم و وحشی حربے استعمال کرتی ہے، جبکہ انصار الاسلام اس سخت اور انتہاپسندانہ مؤقف کی مخالفت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ نرم اور اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھے۔

اس کے علاوہ، داعش ایک انتہاپسندانہ موقف اختیار کرتی ہے اور جہاد کے لیے اکثر بے رحم حربے استعمال کرتی ہے، جبکہ انصار الاسلام اس سخت اور افراطی موقف کی مخالفت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ نرم اور اسلامی اصولوں کے مطابق موقف اختیار کرے۔

مجموعی طور پر داعش ایک خارجی اور انتہاپسند گروہ ہے جن کا مقصد مسلمانوں سے قتل وقتال اور ان کے مابین تفرقہ پیداکرنے کے سوا کچھ نہیں، داعش کے کارندے مساجد، مدارس، اسکولوں، بازاروں اور ہوٹلوں میں شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ جسے مالی وسائل، انتظامات اور حمایت موساد، سی آئی اے اور آئی ایس آئی سے حاصل ہوتی ہے۔

Author

Exit mobile version