اس تحریر میں ہم افغانستان میں امارت اسلامیہ یا تحریک طالبان کے قیام، جہاد کے مختلف مراحل، اور جمہوریت کے خلاف جدوجہد اور کوششوں کے مختلف پہلوؤں پر بات کریں گے۔
۱۔ امارت اسلامیہ کیسے وجود میں آئی؟
امارت اسلامی کے ابتدائی بانی وہ طلبہ تھے جو دینی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، زیادہ تر دیہی مدارس اور مساجد میں انہوں نے سوویت حملے کے خلاف جہاد میں فعال کردار ادا کیا اور یہاں تک کہ ان کے مستقل محاذ بھی تھے۔
تنظیمی جنگوں اور بدامنی کے دوران جب مسلح جتھوں کے ظلم، لوٹ مار، قتل و قتال اور وحشت اپنی انتہا کو پہنچ گئے، اس وقت قندھار کے ژڑئی ضلعے کے سنگ حصار علاقے میں، جو اُس وقت ضلع میوند سے ملحق تھا، ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی قیادت میں طالبان نے موجودہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا ارادہ کیا، انہوں نے میوند اور پنجوائی سمیت قریبی اضلاع کی بہت سے دیہی مدارس کے طلبہ کو اپنے ساتھ ملا کر تحریک شروع کی۔
ملا محمد عمررحمہ اللہ کی قیادت میں طالبان نے اس لیے اسلحہ اٹھایا کہ ملک اور قوم مکمل تباہی اور بربادی کے دہانے پر تھی، ہر روز لوگوں کی جانیں، مال اور حقوق ضائع ہو رہے تھے، مسلمانوں کی عزت اور عفت کو خطرات لاحق تھے، افغانستان سقوط اور تقسیم کے خطرے سے دوچار تھا، اور کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس ظلم اور فساد کو روک سکے۔
اس وقت افغانستان میں خانہ جنگی عروج پر پہنچ چکی تھی، جہاد کی حاصل کردہ کامیابیاں ضائع ہو چکی تھیں، ڈیڑھ ملین شہداء کے خون اور قربانیوں کے ساتھ خیانت اور ظلم ہوا، مقدس جہاد بدنام ہو چکا تھا، جہادی رہنماؤں نے ذاتی مفادات اور طاقت کے لیے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیا تھا، یہی عوامل تھے جنہوں نے امارت اسلامی کے قیام کی راہ ہموار کی تاکہ وہ ملک اور عوام کو جاری ظلم، مصیبتوں اور بدبختیوں سے نجات دلائے۔
۲۔ مرحلہ جہاد:
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ۷ اکتوبر۲۰۰۱ء کو افغانستان پر فوجی حملہ کیا۔
امریکہ نے ہمارے ملک پر فوجی حملہ کیا جو کہ تمام انسانی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف تھا، اس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا، یہاں موجود اسلامی نظام کو تباہ کیا اوریہاں موجود غلاموں کی حمایت سے اپنی مرضی کی ’’جمہوریت‘‘ نامی حکومت قائم کی۔
اس کے بعد افغانستان میں اسلامی اور شرعی قوانین کی جگہ جمہوریت نے لے لی، خواتین کی آزادی اور حقوق کے نام پر فحاشی کا آغاز کیا گیا، سینکڑوں ٹی وی چینلز، ریڈیو اسٹیشنز، نیوز ایجنسیز، اخبار اور رسائل کا آغاز ہوا اور ملک میں فوجی حملے کے ساتھ ساتھ فکری اور ثقافتی حملہ بھی شروع ہو گیا، ستارہ افغان اور دیگرناموں سے پروگرامز شروع ہوئے، افغانستان کی بدبختی کا دور شروع ہو گیا، اور دینی و قومی اقدار کو نیچا دکھا کر قدموں تلے روندا گیا۔
لیکن دوسری طرف ایمان والے ابھی تک ہمت نہیں ہارے تھے۔ پوری دنیا کے افکار و نظریات کے مقابلے میں وہ ابھی بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے، انہیں خدا کی مدد کا یقین تھا اور وہ اس بات پر پُرعزم تھے کہ امریکہ کی طاقت بالآخر شکست سے دوچار ہوگی، جہادی تحریک دوبارہ شروع ہو گی اور انسانیت ایک بار پھر ایمان اور مادییت کی معرکے میں ایمان کی فتح اور غلبے پر حیران رہ جائے گی۔
کفر کے مقابلے اور جمہوریت کے خاتمے کے لیے ہزاروں جوان استشہادی کاروائیوں کے لیے تیار ہو گئے، فدائی مجاہدین نے مغرور قابضین کے خلاف ایسے زبردست حملے کیے کہ جن کا وہ پہلے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، ان حملوں نے قابض فورسز کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا اور انہیں افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلانے پڑے۔
آخرکار بیس سال کی سخت جنگ اور مقدس جہاد کے بعد امریکہ نے اپنی شکست تسلیم کی، دوحہ میں امارت اسلامی کے ساتھ اپنی ہار کے معاہدے پر دستخط کر ڈالے اور اپنے تمام فوجی مکمل طور پر افغانستان سے نکال لیے، اس کے ساتھ ہی جمہوریت کے نام پر قائم حکومت اور جمہوریت کے سیاہ دور کا خاتمہ افغانستان میں ہو گیا۔
ایک بار پھر امارت اسلامی بطورحکومت و نظام قائم ہو گئی، اس کے ساتھ ہی پورے ملک میں جمہوریت کا پرچم سرنگوں ہوا، امن کی فضا بحال ہوئی اور افغان عوام کا پسندیدہ اسلامی نظام نافذ ہو گیا۔