قرآن کریم کی یہ آیت
"وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ” (سورة الانفال: ۴۶)
جیسا کہ ہم نے اس سلسلے کی پہلی قسط میں بھی ذکر کیا کہ یہ تمام امت مسلمہ کو ایک بڑا سبق دیتی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت کریں اور آپس کے اختلافات سے بچیں۔
اگر کوئی قوم یا امت اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی بجائے سرکشی، نافرمانی اور گناہ کرے، تو اللہ تعالی اسے دو سزائیں دیتا ہے، پہلی سزا یہ کہ وہ قوم پر عمومی عذاب نازل کرتا ہے، اور دوسری سزا یہ کہ ظالم حکمران اس پر مسلط کرتا ہے، جن کی وجہ سے قوم ذلت اور رسوائی کا شکار ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ غلاموں کی غلام بن کر رہ جاتی ہے۔
اب میں اس امت کی طرف آتا ہوں جسے "خیر الامم” یعنی بہترین امت کہا گیا ہے، یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے، جو تمام امتوں میں سب سے بہترین امت ہے، اس امت کے امام اور رہنما وہ بہترین لوگ ہیں جنہوں نے اس دنیا میں علم، عرفان، حکمت اور انسانیت کی روشنی کو پھیلایا، یہ وہ امت ہے جس نے شر، فساد، بدبختی اور جاہلیت کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا، دنیا میں اخلاقی اقدار کو قائم کیا، انسان کو اس کے انسانی حقوق دلائے، ظلم کے بازاروں کو بند کیا، اور وہ لوگ جو دشمنوں کی طرح ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، انہیں ایک دسترخوان پر بھائیوں کی طرح بٹھایا۔
لیکن اب عقل، علم اور بصیرت کے حامل افراد اس سوچ میں ہیں کہ آخر وہ کیا راز ہے کہ ایک ایسی امت جسے ہر بھلائی کا سرچشمہ بننا تھا، جس میں ہر نیک انسان موجود ہوتا، اور ہر کافر جو نیک عمل کاارادہ کرتا وہ اسلام میں داخل ہوجاتا، لیکن آج وہ امت تباہی اور نقصان کی طرف بڑھ رہی ہے، دن بدن ناکامی اور تنزلی کی طرف رواں دواں ہے۔
اگرچہ مسلمان تعداد کے حساب سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کا دین اسلام جو کہ سچ اور حق ہے، ان سب کے باوجود آج کل کے مسلمان ہندو مت کی طرف مائل ہو رہے ہیں، یہ ہندومت وہ ہے جو سراسر جہالت، جھوٹ اور خرافات کا مجموعہ ہے یا پھر مسلمان ایسے ادیان کی طرف مائل ہو رہے ہیں جو تمام کے تمام اللہ کی طرف سے منسوخ قرار دیے گیے ہیں، ان لوگوں نے آسمانی کتابوں کو اپنے جھوٹ و خرافات سے بھر دیا ہے، اس کے باوجود مسلمان اپنے سچے دین کو چھوڑ کر بھگوان یا دیگر باطل عقائد پر ایمان لارہے ہیں۔
اپنے حق دین سے منحرف ہونا اور باطل ادیان کی طرف مائل ہونا یا اپنے اسلامی رسوم و ثقافت کو ترک کرکے غیروں کی ثقافت کو اختیار کرنا، یہ واضح کرتا ہے کہ اس امت میں کچھ ایسی چیزیں، خیالات اورنظریات پیدا ہو گئے ہیں، جس نے ان سے ان کا اصل مقصد چھین لیا ہے اور انہیں ایسی سرگرمیوں میں مشغول کر دیا ہے جو دن بہ دن پسپائی، بے دینی، فحاشی اور عریانیت کی طرف لے جا رہی ہیں۔
وہ کون سے عوامل ہیں جو امت مسلمہ کے زوال کا سبب بنے ہوئے ہیں؟
۱۔ ترک جہاد
یہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سےامت مسلمہ نے اپنی عظمت و عزت کو کھو دیا، جہاد نہ صرف اللہ تعالی کی رضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ایک طریقہ تھا، بلکہ یہ اسلامی امت کی طاقت، اتحاد اور آزادی کا نشان بھی تھا، جهاد کو ترک کرنے کے نتیجے میں امت مسلمہ نے اپنے اسلامی نظاموں اور خلافتوں کو بھی کھو دیا؛ جب جہاد کا راستہ بند ہو گیا تو امت کی دفاعی اور فکری طاقت بھی کمزور پڑ گئی اور اس کا دشمنوں کے سامنے دفاعی موقف کمزور ہوا، اس سے نہ صرف امت کا داخلی اتحاد متاثر ہوا بلکہ اس کے اسلامی اقدار اور معاشرتی وسماجی نظام بھی مٹنے لگا۔
آج اپنے وطن میں مسلمان اپنی سیاست پر اختیار نہیں رکھتے، آپس کے اختلافات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور رہنمائی وقیادت اب غیروں کے ہاتھ میں ہے، جب انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ کون سا راستہ ہو گا جس سے امت مسلمہ اس ذلت اور رسوائی سے نکل سکے اور ایک بار پھر اپنی قدیم تاریخ اورعظمت رفتہ کو بحال کر سکے، ایک بار پھر دنیا میں اسلام کے پاکیزہ قانون کو نافذ کر سکے اور مسلمان جوعلاقے کھو چکے ہیں، انہیں دوبارہ حاصل کر سکے، تو ان سب چیزوں کا حل اور اس ذلت سے نکلنے کا واحد راستہ صرف اور صرف جہاد ہے۔
مسلمان جو آج جہاں کہیں بھی تکلیف اور اذیت میں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اللہ جل جلالہ کے اس مقدس حکم کو ترک کر دیا ہے جو جہاد ہے؛ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اذا تبایعتم بالعینة وأخذتم أذناب البقرورضیتم بالزرع وترکتم الجهاد سلط الله علیکم ذلا، لاینزعه شیئ حتی ترجعوا الی دینکم). "رواه احمدوأبوداؤد”
ترجمہ: جب تم آپس میں سود کے کاروبار کرنا شروع کردو گے، اور تم گایوں کے پچھواڑے پکڑنے لگو گے، اور فصلوں کی کاشت پر راضی ہو جاؤ گے، اور تم جهاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ جل جلالہ تم پر ذلت مسلط کر دے گا، اور یہ ذلت ایسی ہو گی جو تم سے کبھی نہیں جائے گی، یہاں تک کہ تم دوبارہ اپنے دین کی طرف واپس نہ لوٹ آؤ۔
اس حدیث میں واضح طور پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب امت مسلمہ جهاد کو ترک کرے گی اور دنیاوی معاملات میں اس کی دلچسپی بڑھ جائے گی، تو اللہ ان پر ذلت مسلط کر دے گا اور اس ذلت کو صرف دین کی طرف رجوع کرنے سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔