خلافت عثمانی کے سقوط کے ساتھ ہی اسلامی جغرافیہ ٹکڑوں میں بٹ گیا اور ہر ٹکڑا ایک استعمار کے پنجے میں آ گیا، موجودہ شام کی سرزمین فرانس کے ہاتھوں گروی ہوئی اور اس کے تمام تر امور فرانس کی حکومت اور اس کی رضامندی کے مطابق چلائے جاتے تھے، فرانس کا یہ قبضہ تقریباً بیس سال تک جاری رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر فرانس بھی دیگر ممالک کی طرح کمزور حالت میں تھا اور اس کی اتنی قوت نہیں تھی کہ وہ اپنے زیرِ قبضہ علاقوں کو کنٹرول کرسکے، اسی دوران ۱۹۴۶ء میں شام نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آزادی حاصل کی لیکن یہ ملک بہت غیر مستحکم تھا؛ اس وقت شام میں کوئی مرکزی نظام نہیں تھا اور ملک میں بے چینی اور افراتفری کا دور دورہ تھا۔
۱۹۵۸ء میں شام نے مصر کے ساتھ مل کر جمال عبدالناصر کی قیادت میں متحدہ عرب ریاست کا حصہ بنا، لیکن ۱۹۶۱ء میں اپنی مکمل خودمختاری حاصل کر لی ۱۹۶۳ء میں شام میں کمیونزم بہت تیزی سے پھیل گیا اور بعث پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، بعث پارٹی ایک کمیونسٹ خیالات پر مبنی جماعت تھی جو عراق اور شام میں فعال تھی، اسی طرح جیسے افغانستان میں خلق اور پرچم جماعتیں تھیں۔
۱۹۷۰ء میں بعث پارٹی کا اقتدار برقرار رہا اور اس وقت بعث پارٹی کے رہنما حافظ الاسد شام کے صدر بن گئے، حافظ الاسد ۲۰۰۰ تک صدر رہا، اسی سال اس کا انتقال ہو گیا، اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے بشار الاسد اقتدار میں آئے اور آج تک وہ اس منصب پر فائز ہے، بشار الاسد بھی شیعہ ہونے کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ ہے، اس کی حکومت کو روس اور ایران کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
شام (سوریہ) تقریباً سو سال سے بے دین اورلاوارث ہے، یہ سرزمین ہمیشہ مختلف تمدنوں کا مرکز رہی ہے، مختلف تہذیبوں کی ابتداء یہیں سے ہوئی ہے۔
القاعدہ کے قیام کے ساتھ ہی دنیا کی نظریں اس علاقے پر مرکوز ہو گئیں اور شام میں ۲۰۱۷ء میں ابو محمد جولانی کی قیادت میں تحریر الشام کے نام سے ایک مجاہد گروہ تشکیل دیا گیا، جس میں جبهة النصرہ کے مجاہدین بھی شامل تھے۔ یہ گروہ شام کی خودمختاری کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔
یہ گروہ پچھلے سات سالوں سے سرگرم ہے اور اس دوران اس نے کئی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس نے شام کو ایران اور روس کے وحشی حملوں سے بچایا اور داعش جیسی آفت کو بھی اپنے چھوٹے مجاہد گروہ کی مدد سے داعش کی قیادت کا صفایا کردیا۔
مجاہدین کے اس گروہ نے اپنے وسائل اور تیاری کے بعد ردع العدوان کے نام سے شام پر قابض افواج اور ان کے اجرتی قاتلوں کے خلاف آپریشنز کا آغاز کیا، جو اب تک بہت کامیاب سے جاری ہے۔ انہوں نے بشار الاسد کی ملیشیاؤں سے کئی علاقوں کو چھن لیا ہے اور بہت جلد ان شاء اللہ، شام کی سرزمین پر مکمل حکمرانی حاصل کرلیں گے۔
ان فتوحات کی سلسلے پر پوری امت مسلمہ خوش ہونے کے ساتھ پر امید ہے کہ شام میں اسلامی نظام کے قیام سے پورے مشرق وسطیٰ میں تبدیلی آئے گی، مجاہدین کی اس کامیابی کے ذریعے دوسرے اسلامی ممالک میں بھی جهاد اور آزادی کی روح پھلے گی اور مسلمانوں میں خودمختاری کی جدوجہد مزید مضبوط ہو گی۔