اسلامی حقیقی تربیت یہی تھی اور ایسا ہی قابلِ قدر اور باعزت مربی تھا، جس کی برکت سے ایک شہزادے میں اخلاقی صلاحیتیں، اسلامی شریعت سے محبت، اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کا جذبہ پیدا ہوا۔
خصوصاً مولانا کورانی جیسے افراد جنہوں نے یہ جرأت کی کہ اگر سلطان سے شریعت کے خلاف کوئی عمل سرزد ہوتا، تو وہ بلاخوف و خطر اس کی اصلاح کرتے۔
علامہ کورانی نہ تو بادشاہ کا ہاتھ چومتے اور نہ ہی دوسروں کی طرح اس کے سامنے جھکتے۔ بلکہ بادشاہ خود ان کا ہاتھ چومتا اور ان کا احترام کرتا۔ علامہ کورانی محمد فاتح کو نام لے کر پکارتے، اور سلطان ان کا انتہائی احترام کرتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ اس کی تربیت کے اثر سے محمد فاتح جیسا عظیم انسان تیار ہوا۔
محمد فاتح ایک سچا مؤمن، شریعت کے احکام کا پابند اور دین کی قدر کرنے والا انسان تھا۔
اسلامی احکام کو سب سے پہلے اپنی ذات پر نافذ کرتا، پھر رعایا پر، وہ ایک پرہیزگار اور نیک انسان تھا، جو ہمیشہ نیک لوگوں اور علما سے دعائیں طلب کرتا رہتا۔
سلطان محمد فاتح کی شخصیت کی تشکیل میں شیخ آق شمس الدین کا کردار بھی قابلِ ذکر ہے۔
شیخ نے بچپن ہی میں اس کے دل میں دو چیزیں بٹھا دی تھیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد اور عثمانی تحریک کی ترقی؛
۲۔ اس حدیث کی تکمیل کا شوق جس میں رسول اللہ ﷺ نے بشارت دی تھی کہ قسطنطنیہ کو ایک عظیم سپہ سالار فتح کرے گا۔
پس محمد کی بھی یہی تمنا تھی کہ وہ وہی محمد ہو جو رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا مصداق بنے۔
قسطنطنیہ کی فتح کے لیے تیاری:
سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کی اور اس مقصد کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں۔ اُس وقت تیار کیے گئے لشکر کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ چکی تھی، جو اس دور کے دیگر اقوام کی افواج کے مقابلے میں بہت بڑی اور منظم تھی۔ اس لشکر میں تربیت کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا تھا۔ سپاہیوں کو مختلف اقسام کی عسکری تربیت دی گئی اور جدید اسلحے کا مکمل انتظام کیا گیا، جن سے وہ بخوبی فائدہ اٹھاتے تھے۔
ظاہری تیاریوں کے ساتھ سلطان محمد نے روحانی تیاری پر بھی خاص توجہ دی۔
اس نے لشکر میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کا جذبہ پیدا کیا اور انہیں یاد دلایا کہ رسول اللہ ﷺ نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے لشکر کو بہترین لشکر قرار دیا ہے، اور ممکن ہے وہی لشکر یہی ہو۔ اس بات نے ان میں حوصلہ، روحانی قوت اور شجاعت کو مزید بیدار کیا۔
علماء کرام بھی اس لشکر کے ساتھ شریک تھے، جس سے سپاہیوں کا مورال اور زیادہ بلند ہوا، ان میں حقیقی جہاد کا جذبہ پیدا ہوا اور وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہو گئے۔
سلطان محمد نے باسفورس کی آبنائے کے یورپی کنارے پر، اُس مقام پر ایک قلعہ تعمیر کیا جو سلطان بایزید کے دور میں ایشیا کی طرف ایک قلعے کے مقابل تھا۔یہ نیا قلعہ روملی حصار کے نام سے معروف ہوا۔ قسطنطنیہ کے بیزنطینی حکمران نے سلطان محمد فاتح کو پیشکش کی کہ جو رقم وہ چاہے دے گا، بس یہ قلعہ نہ بنائے، مگر سلطان نے قلعہ تعمیر کیا کیونکہ وہ اس جگہ کی فوجی اہمیت سے بخوبی واقف تھا۔
یہ قلعہ اتنا مضبوط اور بڑا بنایا گیا کہ اُس کے گرنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس کا ارتفاع ۸۲ میٹر تھا، اور ان دونوں قلعوں (روملی حصار اور اناضولی حصار) کے درمیان ۶۶۰ میٹر کا فاصلہ تھا۔
اس مقام سے عثمانیوں کو مکمل نگرانی حاصل ہو گئی، اور اب مشرق سے مغرب کی طرف یا اس کے برعکس کوئی کشتی ان کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی تھی۔
دونوں قلعوں پر توپیں نصب کی گئی تھیں، اور جو بھی کشتی مشرقی علاقوں سے قسطنطنیہ کی طرف آتی، اُس پر توپوں سے گولہ باری کی جاتی۔ اس عمل نے مشرقی علاقوں کی حکومتوں، جیسے طرابزون کی سلطنت کو خوفزدہ کر دیا، جو کسی ضرورت کے وقت قسطنطنیہ کی مدد کر سکتی تھیں۔
(۱) ضروری اسلحہ جمع کرنا:
قسطنطنیہ کی فتح کے لیے سلطان محمد نے اسلحہ جمع کرنے پر خاص توجہ دی، اور توپوں کو خاص اہمیت دی گئی۔
ان کی تیاری کے لیے سلطان نے ہنگری سے ایک ماہر انجینئر اوربان (اردو میں اوریان) کو بلایا، جو توپ سازی میں مہارت رکھتا تھا۔ سلطان نے اس کا پرتپاک استقبال کیا، اسے ہر قسم کی مالی، مادی اور ذاتی سہولیات فراہم کیں، اور اسے حکم دیا کہ بہترین توپیں تیار کرے۔
اوریان نے بہت بڑی بڑی توپیں تیار کیں، ان میں سے ایک توپ اتنی بڑی تھی کہ اس کا وزن ۱۰۰ ٹن تھا، اور اُسے بیلوں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا۔
اس عظیم توپ کو "سلطانی توپ” کہا جاتا تھا۔