خلافت عثمانیہ کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور علمی تاریخ امت مسلمہ کے لیے ایک قیمتی دستاویز ہے اور یہ ماضی کے تجربات سے استفادہ کرکے موجودہ تنزل سے بامِ عروج تک پہنچنے کے لیے راہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔ تاریخ ماضی کا بیان ہے، مگر ہر کوئی اچھا تاریخ نگار نہیں بن سکتا، تاریخ نویسی میں تاریخی طریقہ کار سے آگاہی اور نئے صحافتی اصولوں کی مہارت ہونا ضروری ہے۔
واقعات کا پیش آنا، ہر واقعے کا تاریخی سیاق و سباق اور موجودہ حالات میں ان کی تطبیق کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ تاریخ ماضی کے تجربات بیان کرتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھا کر ہم حال میں ترقی کی سمت متعین کر سکتے ہیں اور مستقبل کے لیے حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں۔
تاریخ سے ہی پتہ چلتاہے کہ اُس وقت امت کے رہبر کون تھے، اپنی راہنمائی کے امور کس طرح سرانجام دیتے تھے، اپنے امیر کا انتخاب کیسے کرتے تھے، اور ایک رہنما کو کس طرح کی خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔
عثمانی خلافت کے حکمرانوں نے عدل کو بہت اہمیت دی، انسانیت کے ساتھ ہمدردی رکھی، عوام کے ساتھ تعاون و ہمدردی کا رویہ برقرار رکھا اور انسانی افکار و نظریات کو مثبت انداز میں پروان چڑھانے کی سعی کی۔
وہ معاشرہ جہاں عدل و انصاف نہیں ہوتا، وہاں انسانی اور سماجی مسائل بہت بڑھ جاتے ہیں۔ عالم اسلام میں انسانوں کے درمیان تعلقات عدل اور احسان پر مبنی ہوتے ہیں، اور عدل انسانوں کے درمیان محبت پیدا کرتا ہے، تعلقات کو مضبوط بناتا ہے اور انسان دوستی کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
إن الله يأمرُ بِالعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔(سورۃ النحل: 90)۔
اوپر ذکر کی گئی آیت میں عدل کے ساتھ احسان کا بھی ذکر آیا ہے، انسانوں کے ساتھ احسان اور مدد کرنے سے انسانوں کے درمیان محبت پیدا ہوتی ہے اور انسان دوستی کی راہ ہموار ہوتی ہے، جب کسی معاشرے میں انسانوں کے درمیان عدل قائم ہو، تو سماجی فساد اور مسائل ختم ہو جاتے ہیں، سماجی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور انسانوں کو بقاء و استحکام حاصل ہوتا ہے۔
اگر ہم عدل کو توازن اور برابری کے معنی میں استعمال کریں اور احسان کو مدد اور انسان دوستی کے معنی میں لیں، تو ایک معاشرے کی ترقی کے لیے یہ دونوں ضروری ہیں اور انسان دوستی کے قیام میں ان دونوں کا کردار اہم ہے۔ عثمانی خلافت میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ انسانی ہمدردی اور بھائی چارہ تب ایک معاشرے میں قائم ہو سکتا ہے جب ماحول انسانیت پر مبنی ہو۔
یہاں ہم خلافت عثمانیہ کی تشکیل، اس کے حکمرانوں، اس کی کامیابیوں اور مسائل پر بات کریں گے۔
۱۔ ترکوں کا نسب اور وطنِ اصلی:
ماوراء النہر وہ خطہ ہے جسے آج ہم "ترکستان” کے نام سے جانتے ہیں، یہ خطہ مشرق میں منگولیا اور شمالی چین کے پہاڑوں تک، مغرب میں کاسپین (خزر) سمندر تک، شمال میں میدانی علاقوں تک اور جنوب میں برصغیر اور فارس تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ غز خاندان کی زمین تھی، اور اس علاقے میں اس خاندان کے بڑے قبیلے آباد تھے جو ترک یا اتراک کے نام سے جانے جاتے تھے۔
چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں انہوں نے اپنے اصلی وطن کو چھوڑا اور بڑی تعداد میں ایشیا کی طرف ہجرت کی۔ مؤرخین اس ہجرت کو مختلف وجوہات سے جوڑتے ہیں، کچھ تاریخ دانوں کے مطابق ان کی ہجرت کی وجہ اقتصادی مسائل تھے، شدید قحط اور آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، اور وہ ایسی جگہوں پر آباد ہو گئے جہاں وسیع چراگاہیں اور زندگی گزارنے کے لیے بہتر مواقع موجود تھے۔
بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ اس ہجرت کی وجہ سیاسی تھی، ترکوں نے بعض طاقتور قبائل سے لڑائیاں مول لی تھیں جن کی فوجی طاقت اور تعداد بہت زیادہ تھی، جیسے منگول قوم۔ اس دشمنی سے بچنے کے لیے انہوں نے ترکستان کو چھوڑا اور ایسی جگہوں کی طرف ہجرت کی جہاں امن اور سکون ہو، تاکہ وہ وہاں آرام سے زندگی گزار سکیں۔ یہ نقطہ نظر ڈاکٹر عبداللطیف عبداللہ بن دہیش کا ہے۔
منگولوں کی دشمنی سے بچنے کے لیے ترکوں نے مغربی سمت میں ہجرت کی اور جیحون دریا کے قریب علاقوں میں آباد ہو گئے۔ اس کے بعد وہ جورجان اور تبرستان پہنچے اور وہاں اپنی زندگی بسر کرنے لگے، اس طرح ترک ان اسلامی علاقوں کے قریب ہو گئے، جنہیں مسلمانوں نے ۲۱ ہجری (۶۲۱ عیسوی) میں جنگوں کے دوران فتح کیا تھا اور فارس میں ساسانی حکومت کے خاتمے کے بعد ان علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔