خوارج کی پہچان! | دوسری قسط

راشد شفيق

تاریخ اسلام میں مختلف اوقات میں خوارج کے مختلف نام رکھے گئے ہیں جو ان کے عقائد اور عمل کے مطابق ہیں۔

یہاں کچھ اہم نام اور ان کی تفصیلات ذکر کی جاتی ہیں:

۱۔ الحروریہ:

یہ نام ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے الگ ہو گئے اور کوفہ کے قریب ایک علاقے "حروراء” میں آباد ہوئے۔ امام اشعری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "مقالات الأشعری” میں لکھا ہے کہ انہیں «الحروریہ» اس لیے کہا گیا کیونکہ ان کا آغاز اس علاقے سے ہوا تھا۔

۲۔ الشُّراة:

خوارج نے اپنے آپ کو یہ نام بھی دیا، کیونکہ بقول ان کے انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے اطاعت میں "بیچ” ڈالا تھا، یعنی انہوں نے جنت کے بدلے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے تابع کر لیا تھا۔ علامہ اشعری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "مقالات الأشعری” میں اس کی وضاحت کی ہے۔

۳۔ المارقة:

یہ نام خوارج کو اس وقت دیا گیا جب وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے الگ ہوئے، شهرستانی نے اپنی کتاب "الملل والنحل” میں کہا کہ وہ "مارقہ” تھے جو نہروان کے مقام پر جمع ہوئے تھے۔

۴۔ المُحَکِّمة:

یہ نام خوارج کو اس وقت دیا گیا جب انہوں نے حکمیت کی تجویز کو مسترد کیا اور کہا: «لا حکم الا لله» (صرف اللہ کا حکم ہے)۔ امام اشعری رحمہ اللہ نے "مقالات الاسلامیین” میں اس کا ذکر کیا ہے۔

یہ تمام نام خوارج کے ان اعمال اور عقائد کی عکاسی کرتے ہیں جو ان کے مخصوص مؤقف اور نظریات کو ظاہر کرتے ہیں یہ خوارج کے مختلف نام اور القابات ہیں، خوارج المارقۃ کے علاوہ تمام ناموں کو پسند کرتےہیں، امام ابوالحسن اشعری نے بھی یہی فرمایاہے کہ یہ لوگ المارقۃ نام کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے کیونکہ اس کا معنی ہے’’دین سے نکلنے والے‘‘۔

خوارج کی ابتدا اور ظہور:

خوارج کی ابتدا اور ظہور کے بارے میں مؤرخین کی مختلف آراء ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ خوارج کا پہلا شخص ذو الخویصرة یا عبداللہ بن ذو الخویصرة التمیمی تھا، جس نے غنیمت کی تقسیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر اعتراض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل پر تنقید کی۔

بخاری شریف میں اس حدیث کا ذکر اس طرح آیا ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غنیمت کی تقسیم فرما رہے تھے کہ ذو الخویصرة نے کہا: «اے اللہ کے رسول، انصاف کرو!» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اگر میں انصاف نہ کروں تو پھر کون کرے گا؟» عمر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اسے قتل کر دیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکا اور فرمایا: «اسے چھوڑ دو، کیونکہ اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں تمہاری عبادات ہیچ نظر آئیں گی، لیکن وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے گزر جاتا ہے۔»

اس حدیث کی بنیاد پر بعض علماء کا کہنا ہے کہ ذو الخویصرة خوارج کا پہلا بانی تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ لوگوں کے دل نرم ہوں۔

دوسرا نقطہ نظر:

قاضی علی بن ابی العز الحنفی الدمشقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "شرح العقیدہ الطحاویہ” میں ذکر کیا ہے کہ خوارج پہلے فتنے کے دوران پیدا ہوئے تھے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف برپا ہواتھا، اور جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ختم ہوا۔

تیسرا نقطہ نظر:

خوارج کا آغاز اس وقت ہوا جب انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے الگ ہو کر ان کے خلاف بغاوت کی، یہ نظریہ بہت سے علماء کے درمیان مشہور ہے۔ امام اشعری رحمہ اللہ خوارج کی تاریخ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی تھی، اس بارے میں فرمایا:

«انہیں خوارج اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھے تھے۔»

چنانچہ خوارج کا نام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے اتنا مشہور ہوگیا کہ اس بغاوت کے بغیر ان کا ذکر نہیں کیا جاتا۔

Author

Exit mobile version