داعشی منصوبہ ISI نے اپنے ذمے کیوں لیا؟

عبدالعلی کلیوال

آئی ایس آئی انٹیلی جنس ایجنسی نے جنوبی ایشیا میں داعش کے منصوبے پر عمل درآمد کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، یہ ایک تسلیم شدہ اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس خفیہ ایجنسی نے یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، دنیا کے تمام سیاسی ماہرین اس حقیقت سے آشنا اور اس کے قائل ہیں۔

سوال یہ ہے کہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے یہ کام کیوں قبول کیا؟ جب کہ آئی ایس آئی جس ملک کا ادارہ ہے وہ ملک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہے اور داعش کو پوری دنیا میں بین الاقوامی سلامتی کے خلاف منصوبہ سمجھا جاتا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ آئی ایس آئی جس ملک کے زیر انتظام سرگرم عمل ہے، وہ سلامتی کونسل کے تمام فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے مگر یہاں داعشی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں اس ملک کی جانب سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی اظہر من الشمس ہے۔

ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا آئی ایس آئی کا ملک واقعی اتنا مضبوط ہے کہ سلامتی کونسل کے فیصلوں کی خلاف ورزی کر سکے اور سلامتی کونسل کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی؟

بین الاقوامی میڈیا کے تبصروں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آئی ایس آئی کے ملک کو اتنے معاشی مسائل کا سامنا ہے کہ اس نے داعش کے ارکان کو اپنی معاشی مشکلات کے حل کے لیے اپنے علاقے میں ٹھکانے مہیا کر دیے ہیں اور خطے میں داعشی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم عمل ہے، جس کے عوض اسے خطیر رقم دی جائے گی۔

رپورٹس بتاتی ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال اس قدر کمزور ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں وقت پرادا نہیں کر سکتے، حکومت سال بھر کے لیے درکار ایندھن اور دیگر ذرائع نہیں خرید سکتی اور اس کے علاوہ بھی اسے دیگر کئی معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔

آئی ایس آئی کے ملک سے ہر سال سینکڑوں سرمایہ کار امن وامان نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے ممالک جا رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ ملک میں بین الاقوامی سیکیورٹی پراجیکٹس اور دہشت گرد گروہوں کی وجہ سے تجارت، معیشت اور سرمایہ کار متاثر ہو رہے ہیں۔

آئی ایس آئی پیسوں کے عوض داعش اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس لیے اپنے ہاں جگہ دیتی ہے، کیونکہ ان کے پاس اپنے حکومتی اقدامات کو سرانجام دینے کے لیے کوئی دوسرا راستہ دستیاب نہیں، اسی مجبوری کی وجہ سے یہ ملک اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، ان ہی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کا الزام آئی ایس آئی پر لگتا ہے۔

مختصر یہ کہ مذکورہ ملک جان بوجھ کر بین الاقوامی سماجی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے جس کی وجہ سے خطے میں دہشت گردانہ منصوبوں کو جگہ دی جاتی ہے اور اس کا الزام براہ راست اسی ملک پر عائد ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں خطے کے ممالک مذکورہ ملک سے اپنے جاری کاروباری و دیگر معاہدے جاری نہیں رکھتے، یہ تمام امور بالآخر آئی ایس آئی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔

Author

Exit mobile version