ایران و پاکستان کے مابین جاری رقابتی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، حکومت ایران نے پاکستان مخالف بلوچ علیحدگی پسندوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ہاں پاکستانی سرحد کے قریب سراوان، ایرانشہر، تفتان اور دیگر شہروں میں محفوظ ٹھکانے اور عسکری تربیت گاہیں فراہم کر رکھی ہیں۔
ایران ہی کی ایماء پر وہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عسکری کاروائی کرتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان نے اسی سیاست کو بروئے کار لاکر ایران مخالف جیش العدل نامی تنظیم کو ایران بارڈر کے قریب محفوظ پناہ گاہیں اور عسکری تربیتی سنٹر فراہم کر رکھے ہیں، ان کی کاروائیاں بھی پاکستانی اداروں کے زیر انتظام ہوتی ہیں۔
پاکستانی حکومت نے جیش العدل کو پنجگور، دیک، دالبندین، نوشکی، تربت اور تفتان کی سرحد سے ملحقہ ایک بڑا علاقہ حوالے کر رکھا ہے جہاں وہ کھلے عام اسلحہ کی ترسیل، پاکستان مخالف افراد کے گھروں پر چھاپے اور ان کی گرفتاریاں بھی کرتے ہیں۔
اگرچہ جیش العدل بنیادی طور پر ایک جہادی اور اپنے مظلوم سنی عوام کے انتقام کا نعرہ لگاتی ہے لیکن جب پاکستانی فوج نے انہیں یہ سہولتیں دے رکھی ہیں تو لامحالہ جیش العدل پاکستانی فوج کے اشارے پر ایرانی حملوں کا جواب بھی دیتی رہی ہے۔
یہاں قابل توجہ ایک نقطہ یہ ہے کہ ایران و پاکستان کی حکومتوں کے درمیاں اختلافات اور دشمنیوں کے باوجود یہ دونوں، داعش نامی بڑے اور تباہ کن منصوبے کو، جو دراصل خطے کے ممالک کی انٹیلی جنس کی جانب سے تشکیل دیا گا اور جسے ہر سپر پاور ملک اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے، لاجسٹک و انٹیلی جنس تعاون فراہم کرتے ہیں، تاکہ امارت اسلامیہ اور افغانستان کی عوام کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کر سکیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق ایران نے اپنے صوبے بلوچستان کئی شہروں میں، جن میان سراوان اور ایرانشہر بھی شامل ہیں، داعش کو پناہ گاہیں دے رکھی ہیں جہاں وہ اپنے پراپیگنڈے کے ذریعے نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے، جس کے بعد عسکری تربیت کے لیے انہیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان بھیجا جاتا ہے۔
تحقيق کے مطابق سراوان اور پاکستان کے مابین کلہ کان، ناھوک، جالق اور اسفندک جیسے کئی سرحدی علاقوں میں کھلے عام داعش میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے۔
یہ سب کچھ ایسی صورتحال میں جاری ہے جب ایران اور پاکستان دونوں ممالک اپنے میڈیا کی شہہ سرخیوں میں بیانات داغتے رہتے ہیں اور امارت اسلامیہ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ افغانستان داعش نامی فتنے کے خلاف عملی اقدامات نہیں اٹھا رہا۔
حالانکہ امارت اسلامیہ نے اپنے قیام کے بعد داعش نامی وبا کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیحات میں شمار کرتے ہوئے دسیوں کامیاب آپریشن کیے اور ان کی بنیاد کو افغانستان سے اکھاڑ پھینکا ہے۔