ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے جاری شدہ اعلامیے میں کہا ہے کہ اسپیشل فورسز نے کابل اور ننگرہار میں کامیاب کاروائیاں کرکے فتنہ پروروں کے اس گروپ کے اہم ارکان کو گرفتار کرلیا ہے جو فرامین و احکامات کے نفاذ اور نگرانی کے ادارے اور بامیان میں غیرملکی سیاحوں پر حملے اور اس کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے، اس کے علاوہ یہ افراد دیگر کاروائیوں میں بھی ملوث تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ فرامین و احکامات کے نفاذ اور نگرانی کے عملہ پر حملے میں ملوث حملہ آور بلوچستان کے شہر مستونگ میں داعش خراسان شاخ کے تربیتی کیمپ سے افغانستان آئے تھے۔
نیزجناب مجاہد کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ملک میں اسپیشل فورسز کی مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں، داعش کے ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے بیشتر نے پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقے مستونگ میں تربیت حاصل کی تھی، یہ گروہ افغانستان میں شکست کھانے کے بعد مذکورہ علاقے کی جانب فرار ہوئے تھے۔
پاکستان نے طویل عرصے تک افغانستان کے خلاف ہر مسلح گروپ کی حمایت کی ہے جس کا مقصد افغانستان اور خطے میں امن وامان میں خلل پیدا کرنا تھا، آج بھی پاکستان داعش خراسان اور شمالی اتحاد کی مدد سے امارت اسلامیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ خطے میں مغربی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکے۔
پاک فوج اور آئی ایس آئی مقاومت اور داعش خراسان کو امارت کے خلاف لڑنے کے لیے تربیت دے رہے ہیں اور انہیں خطے اور دیگر ممالک تک پہنچا رہے ہیں تاکہ خطے کا امن سبوتاژ اور مغربی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ پاکستان آرمی اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ان گروپوں کو اپنے تزویراتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے ان اداروں کو مغرب، عرب اور دیگر ممالک سے مالی امداد بھی ملتی ہے۔
ایک طرف پاکستان خود کو امن و سلامتی کا علمبردار سمجھتا ہے لیکن دوسری طرف یہ اپنی سرزمین میں پڑوسی ممالک کے حکومت مخالف گروپوں کی مالی معاونت کر رہا ہے۔ آئی ایس آئی کی وہ چاپلوس اور گندی سیاست جس کے ذریعے وہ مغرب اور دیگر بین الاقوامی طاقتوں کے لیے علاقائی منصوبوں کو عملا نافذ کرنے کی تگ ودو میں جتاہواہے، یہ معاملہ خود خطے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
شمالی اتحاد اور داعش خراسان دونوں پاکستان کی ہدایت پر کام کر رہے ہیں اور خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے خفیہ ایجنڈوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کا بیان اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ یہ گروہ پاکستان میں تربیت یافتہ ہیں اور وہیں سے مالی اور فوجی امداد حاصل کرتے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی کچھ عرصہ قبل ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں انہوں نے داعش، آئی ایس آئی اور فوج کے بارے میں بہت سے حقائق بتائے تھے کہ کس طرح اور کس کو آرمی کے گیسٹ ہاؤسز میں رکھا جاتا ہے اور ان کی تربیت کی جاتی ہے۔
پاک فوج اور آئی ایس آئی نہ صرف خطے کے دیگر ممالک کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں بلکہ وہ تو برسوں سے اپنے ہی لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں، پاکستان کی داخلی سیاست مکمل طور پر فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی کے ہاتھ میں ہے اور جو بھی سیاسی تنظیم اور لوگ فوج کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں انہیں یا تو قتل کردیا جاتا ہے یا پھرقید کر دیا جاتا ہے، مثال کے طور پر عمران خان جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مغرب سے آزاد بنانا چاہتا تھا، اسے زندان میں ڈال دیا گیا اور آج بھی وہ جیل میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے شب وروز بیتا رہا ہے۔
اپنے قیام کے بعد سے پاکستان مغرب کےعلاقائی منصوبوں پر عمل درآمد کر رہا ہے اور بدلے میں مغرب سے مالی امداد حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان کی آئی ایس آئی نے ہمیشہ مغربی اوریہودی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کیا ہے، اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مختلف گروہوں اور تنظیموں کو تربیت دی ہے۔
خطے میں مغربی ممالک اور سعودی عرب کے مخالفین کی روک تھام اورمغربی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے یہ منصوبے آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج امریکہ، اسرائیل اور سعودیہ کے مالی تعاون سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مغرب کے دشمن جیسے ایران، روس اور چین کے لیے افغانستان میں امن وامان کی صورتحال خراب ہونے کی صورت میں ہی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور اس کام کے لیے مغرب کے پاس پاکستان کے علاوہ اتحادی کے نام پر کوئی دوسرا اچھا غلام نہیں ہے۔
اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے افغانستان کو میدانِ جنگ کے طور پر چنا، لیکن امارت اسلامیہ کی آمد کے ساتھ ہی ان کے منصوبے ناکام ہو گئے، جبہہ مقاومت اور داعشی گروہ کے ارکان ختم ہوتے گئے یہاں تک کہ پورے افغانستان میں کہیں بھی پناہ گاہ نہ ملنے پریہ لوگ پاکستان، تاجکستان اور مغربی ممالک بھاگ گئے۔
ان گروہوں کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان اور مغرب نے ایک اور منصوبہ بنایا جس میں داعش اور جبہہ مقاومت کے مابین اجلاس منعقد کر کے انہیں ایک صف میں کھڑا کر کے امارت اسلامیہ کے خلاف متحد کردیا، ان گروپوں کو مغربی و بین الاقوامی ایجنسیاں آئی ایس آئی کے ذریعے فنڈز و دیگر ضروریات فراہم کر رہی ہیں، اس تمام منصوبے پر عمل کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین اور آئی ایس آئی اپنی خدمات پیش کرچکی ہے۔
لیکن ان تمام معاملات کے علاوہ پاکستان اور مغرب نے ان گروہوں (جبہہ مقاومت اور داعش خراسان) کی حمایت کے علاوہ امارت اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈے کا بازار گرم کر رکھا ہے، میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر وہ امارت اسلامیہ پرالزام لگاتے ہیں کہ ٹی ٹٰی پی افغانستان میں ہے۔
ان کی اس دو رخی پالیسی کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے تاہم چین، ایران اور روس کو پاکستان اور خطے میں مغربی مفادات کے تحفظ کی اس دوغلی پالیسی کو روکنا ہوگا، ورنہ خطہ ایک بار پھر آگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔
پاک فوج اور آئی ایس آئی کو ان منصوبوں پر عمل کرنے میں اپنی بقاء نظر آتی ہے کیونکہ یہ ادارے مغرب سے پیسے لے کر اپنے ملک کی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان خطے کے ممالک کے لیے ایک بڑا سیکورٹی خطرہ ہے۔
امارت اسلامیہ افغانستان کی آمد کے بعد سے ملک میں امن قائم ہوا ہے، اب افغانستان کے بہت سے حصوں میں سیکورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے اور لوگ امن و سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔ امارت اسلامیہ کی قیادت نے ملک کی ترقی کے لیے ایک متحد و مرکزی نظام بنانے پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے اور مکمل امن وامان کو نافذ کرنےکے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔
امارت اسلامیہ افغانستان نے یہ پیغام پوری دنیا کو دے رکھا ہے کہ افغانستان اب جنگوں کا مرکز نہیں رہا اور افغانستان کا خطہ کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ موجودہ افغان حکومت ملک میں ایک مضبوط نظام قائم کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ عوام کی سماجی، اقتصادی اور سیکورٹی جیسی اہم ضروریات کو پورا کیا جائے، افغانستان اب ایک اسلامی نظام کی چھتری تلے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کررہا۔
نتیجہ:
ظاہر ہے کہ خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کی بڑی وجہ پاکستان ہے، پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) پڑوسی ممالک اور خطے میں دہشتگردوں کی مالی معاونت کر رہی ہے جوکہ خطے اورعلاقائی ممالک کے لیے ایک بڑا سیکورٹی خطرہ سمجھا جارہا ہے۔
اسی طرح پاکستان افغانستان میں امارت اسلامیہ کو کمزور کرنے کی کوشش میں ہے، لیکن امارت اسلامیہ افغانستان نے اپنے مسلح مخالفین کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا ہے اور پورے ملک میں امن کی فضا بحال کردی ہے لیکن اب افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے خفیہ منصوبوں سے آگاہ ہو کران ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملادے۔
عالمی برادری بالخصوص خطے کے ممالک کو چاہیے کہ پاکستان کی دوغلی پالیسی اورامن کے دشمن باغی گروہوں کی سرگرمیوں کے خلاف سنجیدگی سے کارروائی کریں، خطے کے ممالک کی ہم آہنگی سے ہی ہم پاکستان کی مذموم سرگرمیوں کو روک سکیں گے اور خطے میں سلامتی اور استحکام کی مضبوط بنیاد رکھ سکیں گے۔