گزشتہ ہفتے کی صبح، یہودی مجرم افواج نے مدرسہ تابعین کے نہتے لوگوں پر نمازِ فجر کے دوران بمباری کر دی جس کے نتیجے میں سو سے زیادہ افراد جن میں سے اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی شہید ہو گئے۔
غزہ کی جنگ اور تشدد کو دس ماہ پورے ہو چکے ہیں اور یہ اب بھی جاری ہے۔ وہ قوم جس کی آبادی بیس لاکھ سے زیادہ ہے ، آج ایسے حال میں ہے کہ ان کے بچوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے ذبح کیا جا رہا ہے، اور ان کے گھر ان کے سروں پر گر ائے جا رہے ہیں، لیکن کوئی ردّعمل دیکھنے میں نہیں آتا۔
امت اس حد تک کمزور حالت تک پہنچ چکی ہے کہ دنیا کی ذلیل ترین قوم "یہودی” جسے کوئی انسان بھی برداشت نہیں کر سکتا، اسلامی سرزمین پر شب و روز طرح طرح کے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے دیگر امتیوں کے پاس نہ تو زبان ہے اور نہ ہی بندوق کے زور پر اپنی سرزمین اور عزت کا دفاع کرنے کی صلاحیت۔
حالانکہ مسلمانوں کے ۵۷ ممالک ہیں جن کی جدید فوجیں ہزاروں ٹینکوں اور توپوں سے لیس ہیں اور جن کی ماضی میں قابل فخر تاریخی اور طاقتور حکومتیں ہوا کرتی تھیں۔
سلجوقیوں کی اولادیں کیوں نہیں اٹھتیں اور نہ ہی فاروق کی اولادیں کوئی رد عمل ظاہر کرتی ہیں؟ عثمانیوں کی اولادیں خاموش کیوں ہیں؟ اور عثمان کی تلوار کی آواز اب کیوں سنائی نہیں دیتی؟
ترکی سے خلافت کے لشکر اپنے مرکز سے غزہ کے مظلوموں کی عزت کے دفاع کے لیے حرکت کیوں نہیں کرتے؟ اور "أينقص الدين وأنا حي” کا نعرہ کیوں بلند نہیں ہوتا؟
ایک متحد لشکر کیوں تشکیل نہیں دیا جاتا جس کا پہلا سرا خلافت اسلامیہ کے مرکز میں ہو جبکہ آخری سرا سندھ اور دہلی تک پہنچتا ہو تاکہ ظلم و نا انصافی کو روکا جا سکے؟
فتحٔ قادسیہ کا لشکر غزہ کے مظلوموں کی مدد کیوں نہیں کرتا؟
کیوں؟ اور اس طرح کی ایک ہزار دیگر کیوں ہیں جن کے جواب کے حصول کی کوئی امید نہیں، سوائے اس کے کہ ایک متحد امت تمام مظالم اور جرائم کے خلاف مضبوطی سے کھڑی ہو جائے، اور پورے وقار کے ساتھ ہر کسی کا دفاع کرے۔ لیکن اس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔