جب عرب کی افواج نے رومی اور فارس کی سلطنتوں کے خلاف جنگ چھیڑی، تو کچھ ظاہری طور پر عقلمند لوگوں نے اسے جنون سمجھا، ان کے لیے اسلام کی فتح کا تصور محض ایک خواب معلوم ہوتا تھا اوروہ صرف ظاہری حالت پر یقین رکھتے تھے، لیکن اسلام کا نوردنیا کی ہر تاریکی کو روشنی میں بدلنے کے لیے آئی تھی، ہر ظلم اور ستم کو انصاف اور برابری کی بنیادوں میں تبدیل کیا جائے، اور غلام اور آقا کی دنیا میں عدل و مساوات کا پرچم بلند کیا جائے۔ اس فوج کے پاس ظاہری اسباب اور وسائل کی کمی تھی، لیکن اللہ تعالی کی مدد پر ان کا اتنا یقین تھا کہ 18,000 سپاہی تقریباً 50,000 کفار کے مقابلے کے لیے میدان میں کود گئے۔
عربوں کے صحرا سے اٹھ کر یہ لوگ عراق کی زرخیز سرزمین کی طرف بڑھے اور وہاں فتوحات حاصل کیں، پھر بھی کچھ لوگ یقین نہیں کررہے تھے اور یہ سب کچھ تقدیر کا معجزہ سمجھتے تھے، وہ لوگ جو صرف ظاہری اسباب پر یقین رکھتے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کی معنوی مدد کو کس نظر اور کیسے دیکھ سکتے تھے؟
حجاز کے اس قافلے کو فتح اور شہادت پر یقین تھا، کیونکہ وہ دشمن افواج کے مقابلے میں کامیاب تھے، اس لشکر کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں اعتماد، یقین اور اطمینان کی لہریں دوڑ رہی تھیں اور شکست کا تصور ان کی زندگی سے ناآشنا تھا، اسلام کے لشکر کے سامنے رومیوں اور ایرانیوں نے اتحاد قائم کیا، لیکن سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس اتحاد کو بھی توڑ دیا اور رومی و ایرانی فوجیں راہ فرار اختیار کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہی تھیں، میدانِ فَراض میں ہر طرف بے شمار لاشیں پھیلیں تھیں؛ یہ تمام فتوحات اللہ کی مدد پر منحصر تھیں۔
کسری اور اسلام کے درمیان جنگ فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکی تھی، مسلمانوں کے امیر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ صرف تیس ہزار غازی تھے، جبکہ کسریٰ کی فوج ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد تھی اور ان کے پاس ہاتھیوں اور دیگر جنگی آلات کی کمی نہ تھی، اس کے باوجود مسلمانوں کی حالت مختلف تھی؛ ان کے پاس صرف پرانی تلواریں اور زنگ آلود زرہیں تھیں جو اکثر لوگوں کے جسم پر نہیں تھیں، لیکن یہ تمام صحابہ جذبہ جہاد سے سرشار تھے۔
انہیں اسباب کی کوئی فکر نہیں تھی، کیونکہ وہ اللہ کی مدد پر بھروسہ رکھتے تھے؛ ہر ایک نے اللہ سے شہادت کی دعا مانگی ہوئی تھی، تین دن تک مسلسل جنگ جاری رہی اور چوتھے دن کسریٰ کا تخت و تاج مٹی میں دفن ہو گیا؛ ان کا سپہ سالار ماراگیا اور شکست خوردہ فوج میدان چھوڑ کر فرار ہوگئی، قادسیہ کا میدان فارس کی عظمت کا جنازہ بن گیا اور اس کے ساتھ ہی ایران کی ہزاروں سال پرانی شان و شوکت ان خاک آلود، سادہ لوح لوگوں نے زمین بوس کردیا۔
وہ انسانیت کی عظمت کی علامت تھے، ہر ایک کے دل میں فتح اور شہادت کی طلب تھی، لیکن دشمن صرف فتح کی امید میں لڑ رہا تھا، وہ موت سے ڈرتا تھا اور اسے اپنی ناکامی کی وجہ سمجھتا تھا، ظاہری اسباب پر ایمان رکھنے والے فاسد خیالات اکثر معنویت اور باطنی مدد کو بھول کر اسے وہم خیال کرتے ہیں جبکہ تاریخِ اسلام ایسی ہزاروں واقعات کی گواہ ہے، جہاں ایک طرف مادیت کے علمبردار تھے اور دوسری طرف ایمان اور معنوی مدد پر یقین رکھنے والے لوگ تھے، اور فتح ہمیشہ دوسرے گروہ کے حصے میں آئی۔
آج اور کل کی کہانی ایک ہی ہے؛ آج اسرائیل مادیت کا علمبردار ہے، لیکن اس کے سامنے غزہ کے ظاہری بے بس وبے سہاری لوگ ایسی بہادری دکھا رہے ہیں کہ مادیت پرستوں کے تمام باطل نظریات، آئیڈیالوجیز اور خیالات کو پاش پاش کر رہے ہیں۔
عصرحاضر کے ظاہری اسباب پر ایمان رکھنے والے بھی ماضی کی طرح اسرائیل کے خلاف لڑنے والے اہلیانِ غزہ کو جنونی سمجھتے ہیں، لیکن اللہ کی مدد سے بے خبر یہ لوگ اس وقت حیران ہوں گے جب اسرائیل شکستِ فاش کا سامنا کرے گا، ہم ایسے ہی وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور یہ وقت اللہ کے حکم سےعنقریب آنے والا ہے۔